1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سینئر سیاستدان اور غیر اخلاقی ویڈیو، سیاسی حلقوں میں ہلچل

عبدالستار، اسلام آباد
27 ستمبر 2021

پاکستان میں منظر عام پر آنے والی ایک غیر اخلاقی ویڈیو میں مبینہ طور پر سابق گورنر سندھ اور نون لیگ کے رہنما زبیر عمر دکھائی دے رہے ہیں۔ اس واقعے کے بعد سیاسی حلقوں میں ہلچل مچ گئی ہے اور مبصرین نے اسے شرمناک قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/40w6M
 #Speakup Barometer Pakistan
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem

نون لیگ کے رہنما زبیر عمر نے مذکورہ ویڈیو کو جعلی قرار دیا ہے۔ سابق گورنر سندھ نے پیر کو اپنے ایک بیان میں اس ویڈیو کو 'گھٹیا ترین‘ قرار دیا اور کہا کہ جس نے بھی یہ کام کیا ہے، اسے شرم آنی چاہیے۔

نون لیگ کے لیے پیغام

زبیر عمر کی تردید کے باوجود اتوار کو منظر عام پر آنے والی اس ویڈیو نے ٹوئٹر کے ٹاپ ٹرینڈ میں اپنی جگہ بنائی۔ ملک کے مختلف حلقوں میں اب بھی اس ویڈیو پر بحث چل رہی ہے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ کیونکہ نون لیگ نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کے پاس جج ارشد ملک جیسی بہت ساری ویڈیوز ہیں، اس لیے اس ویڈیو کو جاری کر کے پارٹی کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ وہ ایسی ویڈیو کو جاری کرنے سے باز رہے۔

متنازعہ پاکستانی جج ارشد ملک انتقال کر گئے

متنازعہ ویڈیو کا نتیجہ آسٹریا کے نائب چانسلر اشٹراخے مستعفی

پاکستان:یو ٹیوب پر پابندی کو دو سال ہو گئے

لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار حبیب اکرم کا خیال ہے کہ یہ ویڈیو نہ صرف زبیر عمر کے لیے ایک پیغام ہے بلکہ یہ نواز شریف اور مریم نواز شریف کے لیے بھی ایک پیغام ہے کیونکہ زبیر ان دونوں کے ترجمان ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، "کچھ ایسی افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ نون لیگ کے پاس جج ارشد ملک جیسی بہت سی ویڈیوز ہیں اور ممکنہ طور پر وہ انہیں جاری بھی کر سکتی ہے۔ یہ ویڈیو نون لیگ کے لیے ایک پیغام ہے کہ وہ ایسی ویڈیوز کو منظر عام پر لانے سے اجتناب کرے۔"

حزب اختلاف کو پیغام

مسلم لیگ کے رہنما اور سابق وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید کا کہنا ہے کہ کسی کی اس طرح جعلی ویڈیو بنا کے منظر عام پر لانا انتہائی گھٹیا ترین حرکت ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، "میں تصور بھی نہیں کر سکتا کہ کچھ لوگ اس حد تک گر سکتے ہیں۔ اس ویڈیو کے ذریعے حزب اختلاف کی جماعتوں کو پیغام دیا گیا ہے کہ اگر وہ ہمارے عزائم کی راہ میں حائل ہوئے تو ان کی بھی اسی طرح جعلی ویڈیوز منظر عام پر لائی جاسکتی ہیں۔ اس طرح کے پیغامات سن 2018 کے الیکشن سے پہلے بھی دیے گئے تھے۔" انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس ویڈیو کو منظرعام پر لانے والے ذمہ داران پر مقدمہ چلایا جائے اور ان کو سزا دی جائے۔ سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے بھی اسے سیاستدانوں کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والی ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نگہت داد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایسے قوانین موجود ہیں جن کی تحت آپ نجی زندگی کے معاملات کا تحفظ کر سکتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، "سائبر کرائم کے انسداد کے لیے بنائے جانے والے قانون کی شق 20 اور 21 کے تحت کوئی بھی متاثرہ شخص متعلقہ اداروں سے رجوع کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ آئین کی آرٹیکل 14 بھی آپ کی نجی زندگی کے معاملات کے مکمل تحفظ کی ضمانت دیتی ہے۔ جب کہ پاکستان پینل کوڈ کی کچھ شقوں کا اطلاق بھی اس معاملے پر ہو سکتا ہے۔"

Screenshot Youtube Mufti Abdul Qavi
تصویر: Youtube/dreamzworks

خطرناک رجحان میں اضافہ

نگہت داد کا کہنا تھا کہ اس طرح کی قابل اعتراض ویڈیو کو اپ لوڈ کرنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ "2016 میں جب ہم نے اپنی ہیلپ لائن قائم کی تھی تو ہمیں 16 سے تیس تک ایسی شکایت آتی تھیں جن میں بلیک میلنگ، قابل اعتراض تصاویر یا آپ سے پوچھے بغیر آپ کے مواد کو اپ لوڈ کرنا شامل تھا۔ لیکن اب اس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ کورونا کے دوران ان معاملات میں بڑی تیزی آئی ہے اور اب ہمیں اوسطا 400 سے 500 کے قریب شکایات ماہانہ موصول ہو رہی ہیں۔"

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نگہت داد
ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نگہت داد تصویر: DW/U. Wagner

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے علم میں نہیں کہ آیا ایسا کوئی میکنزم ہے یا نہیں جس کے ذریعےسوشل میڈیا پر سب سے پہلے کوئی ویڈیو یا قابل اعتراض تصاویر اپ لوڈ کرنے والے شخص کا پتہ لگایا جا سکے۔ "لیکن میرے خیال میں حکومت کے پاس یقیناً ایسا کوئی میکنزم ہوگا جس کے تحت وہ یہ معلوم کر سکے کہ کوئی بھی قابل اعتراض ویڈیو یا تصویر یا کوئی اور مواد سب سے پہلے کس نے اپ لوڈ کیا۔"

کیا ویڈیو سب سے پہلے اپ لوڈ کرنے والے کا پتہ لگایا جا سکتا ہے؟

اس سوال کے جواب میں حکومت کے ایک تفتیشی ادارے کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، "ہمارے پاس فی الحال ایسی کوئی ٹیکنالوجی موجود نہیں ہے کہ ہم فوری طور پر پتا لگا سکیں کہ یہ ویڈیو کس نے اپ لوڈ کی۔ لیکن ہم متعلقہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے رابطہ کر سکتے ہیں اور اس حوالے سے تفصیلات لے سکتے ہیں۔ اس سے پہلے جب بلاگرز کو پکڑا گیا تھا تو ان کی گرفتاری سے پہلے بھی یہ پتہ چلایا گیا تھا کہ سب سے پہلے کوئی ویڈیو یا کوئی بھی پوسٹ کس نے اپ لوڈ کی۔ یقینا اگر کوئی پوسٹ فیس بک پر اپ لوڈ ہوئی ہے، تو ہم فیس بک والوں سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح یو ٹیوب یا دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘