1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیاست دانوں کے بعد اب صحافیوں کی باری آن پہنچی

13 مارچ 2020

پاکستان کے صحافتی حلقوں میں یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے مالک میر شکیل الرحمن کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری سے پاکستانی میڈیا کو حکومت کے خلاف تنقید سے باز رہنے کا پیغام دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3ZLN6
تصویر: DW/T. Shahzad

پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن کے سکریٹری جنرل حارث خلیق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نیب کی طرف سے حکومت کے مخالفین کو دبانے کا سلسلہ سیاستدانوں سے ہوتا ہوا اب صحافیوں تک آن پہنچا ہے۔ ان کے مطابق صحافیوں سمیت کوئی بھی فرد یا ادارہ احتساب سے بالاتر نہیں ہونا چاہیے لیکن متعصبانہ طور پر، صرف حکومت کی خامیوں کی نشاندہی کرنے والوں کو، بنا کسی ٹھوس ثبوت کے، احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کر دینا مناسب نہیں۔ ان کے بقول تحقیقات شروع ہونے سے پہلے ہی میر شکیل کی گرفتاری نے احتسابی عمل کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔ ان کے نزدیک نیب اپنی افادیت کھو چکا ہے اس لیے اس ادارے کو ختم کر دیا جانا چاہیے۔

Pakistan Jang Group Mir Shakil-ur-Rahman (R)
تصویر: Imago Images/Dean Pictures

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ذرائع ابلاغ کا شعبہ اس وقت بہت مشکل دور سے گزر رہا ہے،''اس سے پہلے ڈان گروپ کو بھی انتقامی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہماری حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کو ایک مہذب اور ترقی یافتہ ریاست بنانے کے لیے میڈیا کی تنقید کا برا نہیں منایا جانا چاہیے بلکہ اس تنقید کو حکومتی غلطیوں کی اصلاح کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔‘‘ حارث خلیق نے مطالبہ کیا کہ میڈیا کے خلاف انتقامی کارروائیوں کو بند کیا جائے اور میر شکیل الرحمن کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔‘‘

ایک اور سوال کے جواب میں حارث خلیق کا کہنا تھا کہ میڈیا اپنے آپ کو حق اور سچ کا ترجمان کہتا ہے اس لیے اس پر اصولوں کی پاسداری کی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ان کے بقول صحافت میں جو اصول توڑتا ہے اس سے باز پرس ضرور ہونی چاہییے لیکن یہ احتسابی سلسلہ متعصبانہ، غیر شفاف، اور غیر منصفانہ نہیں ہونا چاہیے،''اس مشکل دور میں بہتر حکمت عملی یہی ہے کہ ایک طرف میڈیا مالکان سر جوڑ کر بیٹھیں اور فوری طور پر اپنے کارکنوں کی شکایات کا ازالہ کریں دوسری طرف میڈیا تنظیمیں اپنے اندر موجود کالی بھیڑوں کے خلاف ایکشن لیں اسی طرح میڈیا کا کیس مضبوط ہو گا اور ان کی آواز میں وزن آئے گا۔ ‘‘

Pakistan - Zeitung
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

پاکستان کے ممتاز صحافی اورسینئر تجزیہ کار سلیم بخاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ میر شکیل الرحمن کی گرفتاری بہت افسوسناک اقدام ہے۔ ان کے بقول اگرچہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کھلم کھلا میر شکیل کے خلاف بیانات دیتے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ تازہ پیش رفت چیئرمین نیب کی جنگ گروپ سے ذاتی مخاصمت کا نتیجہ لگتی ہے کیونکہ ویریفیکیشن کے دوران کسی فرد کی گرفتاری ایک تشویشناک صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔

سلیم بخاری سمجھتے ہیں کہ میڈیا اور حکومت کے مابین کشیدگی کا یہ سلسلہ طویل عرصے تک جاری رہنے کا امکان ہے اور آنے والے دنوں میں ایسے اور واقعات دیکھنے کو مل سکتے ہیں، ''حکومت اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام ہوگئی ہے، معیشت سنبھل نہیں رہی، گوورننس کا برا حال ہے، ایسے میں تنقید کرنے والوں کی ہی شامت آنی ہے۔ ‘‘

ایک سوال کے جواب میں سلیم بخاری نے بتایا کہ میڈیا احتساب سے بالاتر نہیں ہے لیکن صرف مخصوص گروپ کو نشانہ بنانا اور قانونی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ دینا غلط ہے، ''ماضی میں بھی میڈیا کو آزمائشوں کا سامنا رہا ہے، لیکن ماضی میں حکومتی کارروائیاں کسی قاعدے اور قانون کے تحت ہوتی تھیں اب تو صورت حال بہت ہی تشویش ناک ہے۔‘‘

ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ نگار بریگیڈئیر(ر) فاروق حمید کا کہنا تھا کہ انہیں یہ جان کر حیرت ہوئی ہے کہ احتساب کے اداروں کو چونتیس برس بعد ایک قانون شکنی نظر آئی ہے،''اس سے یہ تو ظاہر ہوتا ہے کہ قانون توڑنے والوں کو کبھی نہ کبھی جواب دہ ہونا پڑ سکتا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں میر شکیل کی گرفتاری سے اس لیے کوئی زیادہ خوشی نہیں ہوئی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ عنقریب طبی وجوہات کو بنیاد بنا ہر ضمانت ہر رہا ہو جائیں گے اور نیب جیسا ناکام ادارہ سیاست دانوں کی طرح ان کے خلاف الزامات کوبھی ثابت نہیں کرسکے گا۔

فاروق حمید کا کہنا تھا کہ وہ ذاتی طور پر پاکستان کے تمام میڈیا اینکرز اور صحافتی اداروں کا احترام کرتے ہیں لیکن انہیں جنگ گروپ اور ڈان گروپ کے کردار پر شدید تحفظات بھی ہیں، ''یہ میڈیا گروپس بہت طاقتور ہیں، یہ ملک میں بادشاہ گر بننا چاہتے ہیں، یہ حکومتیں بنانے اور اکھاڑنے میں کلیدی رول چاہتے ہیں اور  ان کی خواہش ہے کہ وزارتوں سمیت اہم  فیصلے ان کی مرضی اور مشاورت سے کیے جائیں۔ یہ ریاستی اداروں کے خلاف لکھتے ہیں اور کئی بار ان کی پالیسیاں ملک مفادات سے متصادم بھی ہوتی ہیں، ہم نے امن کی آشا کو مندر کی آشا بنتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ یہ صورتحال ٹھیک نہیں ہے‘‘

فاروق حمید کے مطابق انہیں اس بات کا بھی شدید دکھ ہے کہ بعض صحافتی ادارے دولت کے انبار اکٹھے کر لینے کے باوجود اپنے کارکنان کو تنخواہیں تک نہیں دیتے اور میڈیا کے کارکنان بے بسی کی موت مر رہے ہیں،''میرے خیال میں ماضی میں جن میڈیا مالکان نےحکومتوں کو ناجائز فائدے پہنچا کر عوامی خزانے سے جو ناجائز مالی فائدے اٹھائے ہیں، انہیں ضروردیکھا جانا چاہیے۔ ‘‘

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ علی عمران، سلمان شہباز اور کئی دوسرے لوگ نیب کی تفتیش سے بچنے کے لیے ملک سے باہر فرار ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں نیب اگر لوگوں کو گرفتار نہ کرے تو کیا کرے۔‘‘

میڈیا پر بڑھتا کنٹرول