1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سی پیک پاور منصوبوں کے اضافی اخراجات، بوجھ صارفین پر

عبدالستار، اسلام آباد
4 اگست 2017

نیشنل الیکڑک پاور ریگولیٹری اتھارٹی نے بجلی بنانے والی کمپنیوں کو اس بات کی اجازت دے دی ہے کہ وہ سی پیک کے انیس پاور منصوبوں کی سیکیورٹی پر اٹھنے والے اضافی اخراجات کا بوجھ صارفین پر ڈال دیں۔

https://p.dw.com/p/2hik1
Pakistan Stromerzeugung Korruption Ministerpräsident Nandipur Power Project
نیپراکے فیصلے کی وجہ سے سی پیک پاور منصوبے ایک بار پھرتنقید کی زد میں آ گئے ہیںتصویر: DGPR

اس فیصلے کی وجہ سے کئی حلقوں میں نہ صرف سی پیک کے پاور پراجیکٹس پر بحث شروع ہوگئی ہے بلکہ چینی کمپنیوں کو دی جانے والی خصوصی رعایات بھی اب موضوع بحث ہیں۔ انگریزی روزنامہ ڈان کی ایک خبر کے مطابق ان انیس پاور پراجیکٹس کی لاگت 15.56بلین ڈالرز ہے اور اس لاگت کا ایک فیصد صارفین سے وصول کیا جائے گا۔ اخبار کے مطابق نیپرا نے اسٹیک ہولڈرز کی اس بات کو مسترد کر دیا کہ سیکیورٹی فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے اور یہ کہ صارفین پر یہ اضافی بوجھ نہیں ڈالا جانا چاہیے۔

اس فیصلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے معروف ماہر اقتصادیات ڈاکڑ وقار احمد نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’چینی کمپنیوں کا ٹیرف پہلے ہی بہت زیادہ ہے اور اس کے علاوہ انہیں ریٹ آف ریٹرنز کی بھی گارنٹی دی گئی ہے۔ اگر حکومت یہ نہیں دے سکی تو یقیناﹰ یہ صارفین ہی کو دینے پڑیں گے۔ ’اَرلی ہارویسٹ پراجیکٹس‘ کی تکمیل کے بعد بھی ہمارے ہاں بجلی منہگی ہو گی۔‘‘ 

انہوں نے کہا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت کی توجہ صرف پیداوار پر ہی ہے جب کہ بجلی کی تقسیم اور ترسیل کے حوالے سے اتنا زیادہ کام نہیں ہورہا ہے۔

وقار احمد کا مزید کہنا تھا، ’’تقریبا چوبیس فیصد بجلی خستہ ٹرانسمیشن اور ڈسٹربیوشن نظام کی وجہ سے ضائع ہوجاتی ہے۔ یہ نظام بہت پرانا ہے اور اس میں فوری طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ دس فیصد بجلی چوری ہوجاتی ہے۔ ‘‘

Pakistan Windenergie
تصویر: picture-alliance/Zuma Press/Xinhua/A. Kama

انہوں نے کہا کہ مسئلہ صرف بجلی یا گیس پیدا کرنے کا نہیں بلکہ سستے ریٹ پر توانائی پیدا کرنے کا ہے۔ وقار احمد کے مطابق ،’’ یہ بات صیح ہے کہ اب گیس کی لوڈشیڈنگ صنعتی علاقوں میں نہیں ہے لیکن ایل این جی اتنی مہنگی ہے کہ اب صنعت کار گیس کے بجائے متبادل ذرائع ڈھونڈ رہے ہیں۔ میں ذاتی طور پرایک بہت بڑی سیمنٹ کی فیکڑی کو جانتا ہوں، جو ایل این جی پر اپنے یونٹس نہیں چلا رہی۔ تو حکومت نے زیادہ مراعات بھی چینی کمپنیوں کو دیں اور اس کا ٹیرف بھی بہت مہنگا رکھا۔ جس کا نقصان صارفین کو ہوگا۔ چینی کمپنیوں کا بھی یہ مطالبہ تھا کہ ہمیں ٹیرف مہنگا دیں اور حکومت نے ویسا ہی کیا۔‘‘

اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسڑیز کے سابق صدر محسن خالد نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ بات صیح ہے کہ آپ کے پاس بجلی ہوگی لیکن اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ بجلی سستی بھی ہوگی۔ اب ان پراجیکٹس کے مکمل ہونے کے بعد دس سال تک تو کوئی امکان نہیں کہ بجلی ہمیں سستی ملے۔ اگر حکومت بہت زیادہ سبسڈی دے ، جو دینا مالی اعتبار سے بہت مشکل ہے، تو اور بات ہے لیکن سبسڈی کے بغیر اس ٹیر ف پر بجلی سستی نہیں ملے گی۔‘‘

Solarenergie in Pakistan
تصویر: picture-alliance/Photoshot/Xinhua/A. Amal

معروف صنعت کار احمد چنائے نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’جب حکومت یہ معاہدے کر رہی تھی تو ہم نے اپنے تحفظات سے انہیں آگاہ کیا تھا لیکن حکومت نے ہماری نہیں سنی اور یہ کہا کہ پہلے ہم بجلی کی کمی کو پورا کریں گے اور بعد میں قیمت کم ہوجائے گی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ بعد والامعاملہ جب تک آئے گا ، اس وقت تک پانی سر سے گزر چکا ہوگا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں بجلی سستی ہوگی اور ہم مہنگے نرخوں پر خرید رہے ہوں گے۔ احمد چنائے کے بقول ، ’’آپ دیکھیں گے کہ دنیا میں بجلی آٹھ سینٹ فی یونٹ ہوگی اور ہمارے ہاں یہ اٹھارہ کے قریب ہوگی۔ اس سے تو ہماری صنعتیں برباد اور برآمدات ختم ہو جائیں گی۔ پھر حکومت کہے گی کہ صنعت کار بنگلہ دیش اور دوسرے ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔