1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوئٹزرلینڈ میں برقعے پر پابندی: عوام حامی لیکن پارلیمان خلاف

26 ستمبر 2019

سوئٹزرلینڈ میں برقعہ پہننے پر ملک گیر پابندی کے مطالبے کو ملکی پارلیمان نے اکثریتی رائے سے مسترد کر دیا ہے۔ سوئس وزیر انصاف کے مطابق عوامی لباس تک کے لیے سرکاری ضابطے بنانا لبرل سوئس معاشرے کی سماجی اقدار سے متصادم ہے۔

https://p.dw.com/p/3QJ4W
تصویر: picture-alliance/dpa/Keystone/M. Bieri

اس موضوع پر سوئٹزرلینڈ میں عوامی سطح پر مطالبے ایک ایسی تحریک کی طرف سے کیے جا رہے تھے، جس کا نام 'مکمل برقعہ پہننے پر پابندی کے لیے ہاں‘ ہے اور بَیرن میں سوئس پارلیمان نے اس سلسلے میں ایک مسودہ قانون کو نو کے مقابلے میں 34 ووٹوں کی بہت بڑی اکثریت سے رد کر دیا۔

اس قرارداد کے برعکس ایک دوسری قرارداد پر بھی سوئس ایوان بالا یا 'بنڈس راٹ‘ میں رائے شماری ہوئی، جسے بہت بڑی اکثریت سے منظور کر لیا گیا۔

یہ قرارداد اس بارے میں تھی کہ مستقبل میں پورے ملک میں ہر اس انسان کو اپنا چہرہ دکھانا ہو گا، جس کی شناخت کا طے کیا جانا لازمی ہو۔

تاہم اس بارے میں حتمی فیصلہ سوئس ریاست کے تمام کینٹن خود کر سکیں گے۔

اس دوسری قرارداد کے حق میں 35 ارکان نے اپنی رائے دی جبکہ مخالفت کرنے والے اراکین کی تعداد صرف آٹھ تھی۔ دو ارکان نے اپنی رائے محفوظ رکھی۔

زیادہ متاثر مسلمان خواتین ہوتیں

برقعہ پہننے کے خلاف سوئٹزرلینڈ میں عوامی سطح پر شروع کی گئی تحریک کا مطالبہ یہ تھا کہ ایلپس کی اس جمہوریہ میں اس بات پر مکمل پابندی ہونا چاہیے کہ کوئی بھی شہری اس طرح عوامی مقامات پر نظر آئے کہ اس کا چہرہ نظر نہ آ رہا ہو۔ اس مطالبے سے سب سے زیادہ وہ قدامت پسند مسلمان خواتین متاثر ہوتیں، جو اس یورپی ملک میں مسلم مذہبی اقلیت کا حصہ ہیں اور برقعہ، نقاب یا حجاب استعمال کرتی ہیں۔

اگر یہ پارلیمانی قرارداد منظور ہو جاتی، تو اس کا اطلاق آئندہ ایسی سیاح خواتین پر بھی ہوتا، جو محدود عرصے کے لیے سوئٹزرلینڈ آتی ہیں لیکن نقاب یا برقعہ پہننتی ہیں۔ ایسی تمام سیاح خواتین بھی تقریباﹰ ہمیشہ ہی مسلمان ہوتی ہیں۔ اس قرارداد کی منظوری سے سوئ‍‍‍‍‍ٹزرلینڈ میں ایسے مظاہرین کے لیے بھی زندگی مشکل ہو جاتی، جو چہروں پر نقاب پہن کر احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیتے ہیں۔

قانونی پابندی 'کمزوری کی عکاس‘ ہوتی

اس موضوع پر سوئس ایوان بالا میں بحث کے دوران خاتون وزیر انصاف کارِن کَیلر زُوٹر نے کہا کہ خواتین کا اپنے چہرے کو مکمل طور پر ڈھانپنا سوئس معاشرتی روایات سے میل نہیں کھاتا اور مسلمانوں میں بھی یہ انتہائی قدامت پسند مذہبی سوچ کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ دوسری طرف ریاست کا عوام کو یہ بتانا کہ انہیں کس طرح کا لباس پہننا چاہیے، یہ بات بھی لبرل سوئس معاشرتی اقدار سے عین متصادم ہے۔

سوئس خاتون وزیر انصاف نے کہا کہ اگر پورے ملک میں برقعہ پہننے پر پابندی لگا دی جاتی، تو یہ دراصل ایک سماجی کمزوری کی عکاس ہوتی۔ اس کے برعکس ملکی پارلیمان نے جو قرارداد منظور کی ہے، اس میں زیادہ دانش مندانہ قانون سازی کرتے ہوئے اس 'مسئلے کو وہیں پر حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جہاں یہ موجود ہے،‘ نہ کہ اس کی وجہ سے برقعہ پہننے پر ملک گیر پابندی لگا دی جاتی۔

م م / ش ح (کے این اے)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں