1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’’سندیسہ یہی ہے کہ رشتے اچھے ہوں‘‘ سشما سوراج

شکور رحیم ، اسلام آباد8 دسمبر 2015

بین الاقوامی کانفرنس "ہارٹ آف ایشیا، استنبول پراسس" کا دو روزہ وزارتی اجلاس اسلام آباد میں شروع ہو گیا ہے۔ یہ اجلاس پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ میزبانی میں ہو رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1HJQH
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Mughal

اس کانفرنس کا عنوان "سلامتی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے تعاون اور خطے میں رابطوں کا فروغ" ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج اس کانفرنس میں شرکت کے لیے خصوصی طور پر منگل کی شام نئی دہلی سے اسلام آباد پہنچی ہیں۔ اسلام آباد میں ایئرپورٹ پر صحافیوں سے مختصر بات چیت میں ان کا کہنا تھا کہ افغانستان سے متعلق کانفرنس اہمیت کی حامل ہے’’ اسی لیے پاکستان آئی ہوں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ وہ پاکستانی وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز سے ملاقاتیں کریں گی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا "ملاقات میں بات کیا ہو گی یہ جاتے وقت پتہ چلے گا۔" انہوں نے کہا کہ سندیسہ یہی ہے کہ رشتے اچھے ہوں اور آگے بڑھیں۔

Indien Sushma Swaraj
تصویر: AP

پاکستانی دفتر خارجہ کے حکام کے مطابق اس کانفرنس میں چین اور ایران سمیت دس ممالک کے وزراء خارجہ بھی شریک ہوں گے جبکہ سترہ ممالک، جو استنبول عمل کی حمایت کر رہے ہیں، ان کے نمائندے بھی کانفرنس میں شریک ہیں۔ ان ممالک میں اکثریت مغربی ممالک کی ہے۔

کانفرنس کے مشترکہ میزبان ملک افغانستان کے صدر اشرف غنی کل (بدھ) کے روز اسلام آباد پہنچیں گے جہاں وہ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ مل کر کانفرنس کا باضابطہ افتتاح کریں گے۔ اس سے قبل پاکستانی مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کانفرنس کے پہلے دن اعلیٰ عہدیداروں کے اجلاس سے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ملک افغانستان میں پائیدار امن کا خواہاں ہے کیونکہ افغانستان میں عدم استحکام پاکستان کے مفاد میں نہیں۔

منگل کو پاکستانی دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس علاقائی تعاون اور رابطوں کے لیے ایک مؤثر پلیٹ فارم ہے۔ انہوں نے کہا "جوں جوں استنبول عمل آگے بڑھ رہا ہے خطے کو درپیش سلامتی کے سنگین خطرات سے مؤثر طور پر نمٹنے اور اقتصادی روابط پر توجہ مرکوز رکھنا ہو گی"۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے میں جب خطے میں سلامتی کے سنگین خطرات سماجی و اقتصادی ترقی کی کوششوں کو متاثر کر رہے ہیں سلامتی کے لیے ساز گار ماحول کا قیام تعاون کے فروغ کے لیے بہت اہم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کانفرنس سے رکن ممالک کو افغانستان میں امن اور استحکام کے لیے نتیجہ خیز سرگرمیوں میں حصہ لینے کا موقع ملتا ہے۔ اس موقع پر افغانستان کے نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی نے دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا "دنیا کے مختلف ملکوں میں داعش سمیت دیگر دہشت گرد گروپ کی سرگرمیاں انسانیت کو درپیش خطرے اور اس برائی کی سنگینی کی یاد دلاتی ہیں۔ اس شیطانی نظریے کے خلاف فوری طور پر اجتماعی کوششیں کرنے کی ضرورت ہے"۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرامن، خوشحال اور مستحکم افغانستان خطے کے مفاد میں ہے اور افغانستان خطے کے ممالک کے دنیا کے دوسرے ملکوں کے ساتھ سماجی و اقتصادی روابط کو فروغ دینے کے لیے ایک پل کا کردار ادا کر سکتا ہے۔

خیال رہے کہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا آغاز دو ہزار گیارہ میں ترکی کے شہر استنبول میں کیا گیا تھا۔ اس لیے اسے استنبول عمل کا نام بھی دیا گیا ہے۔ اس عمل کا مقصد خطے خصوصاً افغانستان میں قیام امن کے لیے رکن اور حامی ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا ہے۔

Afghanistan Konferenz Sartaj Aziz
تصویر: DW

تاہم پاکستان کے پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے تناظر اور بھارتی وزیر خارجہ کی آمد کے سبب اسلام آباد میں ہونے والی اس کانفرنس میں افغانستان کا مسئلہ مقامی ذرائع ابلاغ پر کسی حد تک پس منظر میں نظر آرہا ہے جہاں پاکستان اور بھارت کے کشیدہ تعلقات پر زیادہ بحث ہو رہی ہے۔

پاکستانی ذرائع ابلاغ کے ایک گروپ "ڈان نیوز" سے وابستہ سینئیر صحافی افتخار شیرازی نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا " پاکستان اور بھارت اس خطے اور ایشیاء کے دو اہم ممالک ہیں اور ان کی باہم کشیدگی یقیناً مقامی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے لیے ایک بڑی خبر ہے اور شاید یہی صورتحال نظر بھی آرہی ہے۔ لیکن میرے خیال سے جب افغان صدر اشرف غنی پاکستان آئیں گے تو صورتحال تبدیل ہو گی اور یقیناً میڈیا کا فوکس بھی افغانستان کی طرف شفٹ ہو گا اور ویسے بھی کانفرنس کے اختتام پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہو گا اس کو دیکھنا پڑے گا کہ وہ کیا کہتا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس میں شریک دیگر ممالک بھی پاکستان اور بھارت کے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں کیونکہ انہیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر ان دونوں ممالک کے تعلقات بہتر ہوں گے تو اس کے مثبت اثرات افغنستان پر بھی پڑیں گے۔