1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سن دو ہزار سولہ شامی بچوں کے لیے ’تباہ کن‘ رہا

13 مارچ 2017

سن 2016 شامی بچوں کے لیے بدترین ثابت ہوا۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس سال 652 بچے ہلاک ہوئے جبکہ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ اس چھ سالہ تنازعے کی وجہ سے مجموعی ہلاکتوں کی تعداد تین لاکھ سے تجاوز کر گئی۔

https://p.dw.com/p/2Z5WD
Syrien - Kinder im Krieg
تصویر: picture-alliance/AA/H. Nasar

خبر رساں ادارے اے پی نے اقوام متحدہ کے حوالے سے تیرہ مارچ پیر کے دن بتایا کہ چھ سالہ شامی خانہ جنگی کے دوران سن دو ہزار سولہ کا سال بچوں کے لیے انتہائی بدترین ثابت ہوا۔ اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ شامی جنگ کے دوران اطراف کی لڑائی میں اسکول، بچوں کی کھیلنے کی جگہیں، پارک اور گھر بھی محفوظ نہ رہے۔ اس ادارے کے مطابق اس بحران میں عالمی جنگی قوانین کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

حليمہ کا سفر : مہاجرين کے بحران کی عکاسی بچوں کی کہانی کے ذريعے

شامی اسکول پر بمباری، 22 بچے ہلاک

اردن، اب زیادہ شامی مہاجر بچے اسکول جا سکیں گے

یونیسیف کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس 255 بچے اسکولوں یا دیگر تعلیمی اداروں کے قریب ہلاک ہوئے جبکہ 1.7 ملین بچے تعلیم سے محروم ہو چکے ہیں۔ اس خانہ جنگی کی وجہ سے ہر تین میں سے ایک اسکول قابل استعمال نہیں رہا۔ کئی اسکول تباہ ہو چکے ہیں جبکہ کچھ میں جنگجوؤں نے اپنے  ٹھکانے بنا لیے ہیں۔ اس کے علاوہ دو اعشاریہ تین ملین شامی بچے مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں مہاجرت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق درجنوں بچے ایسی بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہو رہے ہیں، جن کا علاج ممکن ہے۔

یونیسیف نے اپنی اس رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ شام کی نئی نسل کے لیے تعلیمی اور طبی سہولیات بہت تیزی سے ختم ہو رہی ہیں، جس کی وجہ سے یہ بچے چائلڈ لیبر یا کم عمری کی شادیوں کا شکار بن رہے ہیں۔ مزید کہا گیا ہے کہ اس صورتحال میں بچوں کو جنگی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی راہ بھی ہموار ہو رہی ہے۔ یونیسیف کے مطابق گزشتہ برس مختلف جنگجو گروہوں نے 851 بچوں کو بھرتی کیا۔ یہ تعداد سن دو ہزار پندرہ کے مقابلے میں دوگنا سے بھی زیادہ ہے۔

دوسری طرف سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے کہا ہے کہ اس چھ سالہ تنازعے کی وجہ سے مجموعی ہلاکتوں کی تعداد تین لاکھ بیس ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ آبزرویٹری کے مطابق البتہ شام میں جنگ بندی کے کمزور معاہدے کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے لیکن پرتشدد کارروائیاں جاری ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ شامی حکومت اور باغی اس سیزفائر کی خلاف ورزی کا الزام ایک دوسرے پر دھرتے ہیں۔

لندن میں قائم شامی غیر سرکاری ادارے سیریئن آبزرویٹری کے سربراہ رامی عبدالرحمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ ان نئے تازہ اعداد و شمار کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں چھیانوے ہزار شہری ہیں، جن میں سترہ ہزار چار سو بچے اور گیارہ ہزار خواتین بھی شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ شامی تنازعے کے دوران مجموعی طور پر ساٹھ ہزار نو سو شامی فوجی بھی مارے جا چکے ہیں جبکہ شامی ملیشیا گروپوں کے 45 ہزار جنگجو بھی لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

ان نئے اعداد و شمار کے مطابق شامی خانہ جنگی کے دوران اب تک صدر بشار الاسد کے حامی آٹھ ہزارغیر ملکی فائٹرز بھی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ اس جنگ کے باعث پچپن ہزار کے قریب جہادی بھی مارے گئے ہیں اور اتنی ہی تعداد میں باغی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ رامی عبدالرحمان کی طرف سے جاری کردہ ان اعداد و شمار کے مطابق چار ہزار ایسے افراد بھی مارے گئے ہیں، جن کی شناخت نہیں ہو سکی۔

شام میں مارچ سن دو ہزار گیارہ میں صدر بشار الاسد کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا جو جلد ہی ایک بھرپور خانہ جنگی میں بدل گیا تھا۔ عالمی طاقتوں کی کوشش ہے کہ وہ اس بحران کا پرامن حل تلاش کر لیں۔ اس مقصد کے لیے مشرق وسطیٰ کے ممالک سمیت مغربی طاقتیں امن مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

شامی خانہ جنگی میں پیدا ہونے والے