سن 2021 ریکارڈ سطح پر چھٹا گرم ترین سال تھا
14 جنوری 2022عالمی درجہ حرارت کا تجزیہ کرنے والی دو امریکی حکومتی ایجنسیوں نے 13جنوری جمعرات کے روز جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں، ان کے مطابق کے سن 2021 ریکارڈ طور پر چھٹا گرم ترین سال تھا۔
تازہ ترین اعداد و شمار امریکی خلائی ادارے ناسا اور 'نیشنل اوشینک اینڈ ایٹماسفیرک ایڈمنسٹریشن' (این او اے اے) نے ترتیب دیا ہے، جو عالمی موسمیاتی بحران اور ماحولیاتی تبدیلی کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔
ناسا اپنے تجزیے کے لیے سابقہ 30 برس کی معیاد کو بنیاد بناتا ہے، جس کی رپورٹ کے مطابق سن 2021 چھ گرم ترین سالوں میں سے تقریباً سن 2018 کے برابر رہا۔
تاہم این او اے اے کے ایک الگ تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ بیسوی صدی کے اوسط درجہ حرارت کے مقابلے میں سن 2021 کا اوسط درجہ حرارت 1.51 ڈگری فارن ہائیٹ (0.84 سیلسیس) زیادہ رہا اور اس طرح چھٹی پوزیشن میں بھی اس نے سن 2018 کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ یہ ایک طویل المدت بڑھتی ہوئی گرمی کے رجحان کا حصہ ہے جو بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے آثار کو ظاہر کرتا ہے۔
گرم ترین عشرہ
اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سن 1880 میں جب سے درجہ حرارت کو ریکارڈ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے تب سے جو دس سب سے زیادہ گرم ترین سال ریکارڈ کیے گئے ہیں، ان میں سے نو برس سن 2013 سے 2021 کے دوران کے ہیں۔
این او اے اے میں ماحولیاتی امور کے نگراں رسل وؤز کہتے ہیں، ''یقینی طور گزشتہ دو سو برسوں میں کسی بھی وقت کے مقابلے میں اس وقت سب سے زیادہ گرم موسم ہے، اور شاید کافی طویل عرصے سے بھی۔''
ان کا کہنا تھا، ''بلاشبہ، یہ سب کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی گرمی پھیلانے والی گیسوں کے بڑھتے ہوئے اخراج کی وجہ سے ایسا ہے۔'' ان کا مزید کہنا تھا کہ رواں برس 2022 بھی یقینی طور پر سب سے زیادہ 10 گرم ترین سالوں میں ایک ہو گا۔
انہوں نے کہا، '' 99 فیصد امکان اس بات کا ہے کہ 2022 ٹاپ دس برسوں میں شامل ہو گا۔ پچاس فیصد امکان یہ بھی ہے کہ شاید یہ تھوڑا کم بھی ہو، تاہم ٹاپ پانچ میں تو اس کی درجہ بندی رہے گی اور 10 فیصد امکان اس بات کا ہے کہ یہ اول نمبر پر بھی آ سکتا ہے۔''
لا نینا کے باوجود گرم موسم
گزشتہ برس مشرقی بحر الکاہل میں لا نینا کی موجودگی کی وجہ سے عالمی درجہ حرارت میں کچھ کمی آئی تھی۔ لا نینا رجحان کے سبب وسطی بحر الکاہل کے کچھ حصوں میں قدرتی طور پر ٹھنڈک ہوتی ہے جو عالمی سطح پر موسمیاتی نمونوں کو تبدیل کر دیتا ہے اور گہرے سرد سمندر کے پانی کو اوپری سطح پر لاتا ہے۔
ایل نینو کے برعکس آب و ہوا کا پیٹرن موسم کو بالکل مختلف طریقے سے بدلتا ہے، جس نے 2016 میں عالمی درجہ حرارت میں کافی اضافہ کر دیا تھا۔ ماحولیات سے متعلق سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سن 2021 ایل نینو کی موجودگی میں بھی گرم ترین سال تھا۔
سن 2030 تک 1.5 ڈگری درجہ حرارت تک اضافہ ہو سکتا ہے
صنعتی انقلاب کے بعد سے ماحول میں گرین ہاؤس گیسوں میں اضافے کی وجہ سے درجہ حرارت تیزی سے بڑھ رہا ہے، جو بنیادی طور پر انسانی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ جس موجودہ شرح سے، کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اس حساب سے 2030 کی دہائی میں صنعتی سطح سے
پہلے کے درجہ حرارت کے مقابلے میں 1.5 سینٹی گریڈ تک بڑھنے کا خدشہ ہے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)