1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب:خواتین کے حقوق کی علمبردار لجین الھذلول رہا

11 فروری 2021

نوبل امن انعام کے لیے نامزد الھذلول کو خواتین کی ڈرائیونگ پر عائد پابندی ختم کیے جانے سے کچھ پہلے گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ اس پدرسری نظام کی مخالفت کرتی رہی ہیں جس میں خواتین کے حقوق محدود کردیے گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3pCCf
Saudische Frauenrechtlerin 
Loujain al-Hathloul
تصویر: Reuters/ Amnesty International/M. Wijntjes

سعودی عرب نے خواتین کے حقوق کی کارکن  لجین الھذلول کو تقریباً تین برس تک قید میں رکھنے کے بعد بدھ کے روز رہا کر دیا۔ ان پر سعودی نظام کو تبدیل کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ امریکا نے ان کی رہائی کا خیر مقدم کیا ہے۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تقریباً ایک درجن عورتوں کے ساتھ ہذلول کو مئی 2018 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ انہوں نے سعودی عرب میں گزشتہ کئی عشروں سے خواتین کے کار چلانے پر عائد پابندی کے خلاف مہم چلائی تھی۔

ہذلول کی گرفتاری کے تین ہفتے بعد سعودی حکومت نے اس پابندی کو ختم کر دیا تھا۔ اس وقت تک سعودی عرب دنیا میں واحد ملک تھا جہاں عورتوں کے گاڑی چلانے پر پابندی عائد تھی۔

لجین الھذلول کو پانچ سال آٹھ ماہ کی سزا سنائی گئی تھی۔ ایک سعودی عدالت نے گو کہ انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا تاہم ان پر پانچ برس تک سفری پابندی عائد رہے گی۔

خاندان میں خوشی کا ماحول

الہذلو ل کو گوکہ مشروط رہائی ملی ہے تاہم ان کے گھر میں جشن کا ماحول ہے۔ ان کی بہن، جنہوں نے الہذلول کی رہائی کے لیے مہم چلائی تھی، کافی خوش ہیں۔

ان کی بہن لینا الھذلول نے ٹوئٹر پر لکھا” لجین گھر پہنچ گئی ہیں!!!!“

لینا نے اپنی بہن کی ایک مسکراتی ہوئی تصویر کے ساتھ مزید لکھا ”ایک ہزار ایک دنوں تک قید میں گزارنے کے بعد گھر میں۔"

سعودی عرب کی ایک خصوصی عدالت نے دہشت گردی اور مالیاتی جرائم کے حوالے سے ملکی قانون کے تحت اکتیس سالہ لجین الھذلول کو  گزشتہ برس دسمبر میں پانچ برس آٹھ ماہ قید کی سزا سنائی تھی۔

اقو ام متحدہ نے اس سزا کو وسیع ترانسداد دہشت گردی قوانین کے تحت ''بے بنیاد" قرار دیا تھا۔ عدالت نے ان کی دو سال دس ماہ کی سزا معاف کر دی ہے۔

امریکا کی خوشی اور نکتہ چینی

امریکا نے الھذلول کی رہائی کو ایک ”انتہائی خوش آئند پیش رفت" قرار دیا ہے تاہم کہا کہ انہیں جیل میں بھیجا جانا درست نہیں تھا۔

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا”خواتین کے حقوق اور دیگر انسانی حقوق کو فروغ دینے اور ان کی وکالت کرنے کو کبھی بھی جرم قرار نہیں دیا جانا چاہیے۔"

انسانی حقوق کی تنظیموں نیز الھذلول کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ خواتین کے حقوق کی علمبردار الھذلول کے ساتھ قید کے دوران زیادتیاں کی گئیں، بجلی کے جھٹکے لگائے گئے، واٹربورڈنگ اور کوڑے مارے گئے اور جنسی حملے کیے گئے۔

سعودی حکام نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

ج ا / ص ز (اے ایف پی، روئٹرز)

سعودی خواتین پر آزادی کے در کھلتے ہوئے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں