1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
انسانی حقوقسعودی عرب

اربوں ڈالر کی سعودی بین الاقوامی سرمایہ کاری، کتنی خطرناک؟

3 اکتوبر 2022

سعودی عرب تیل سے کمائی گئی دولت کا بہت بڑا حصہ دیگر ممالک میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ مگر ناقدین کو تحفظات ہیں کہ سعودی عرب اپنی اس اقتصادی طاقت کو سیاسی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4HgqS
Bin Salman mit Olaf Scholz in Jeddah
تصویر: Balkis Press/abaca/picture alliance

سعودی عرب کی طرف سےانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سبب عالمی سطحپر ایسے مطالبات اکثر سامنے آتے رہتے ہیں کہ سعودی عرب کا بائیکاٹ کیا جائے۔ لیکن اگر کسی نے اس پر عملدرآمد کی کوشش کی تو اسے مشکل صورتحال کا سامنا ہو سکتا ہے خاص طور پر اگر وہ اس ملک کی بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی سرمایہ کاری کے اثرات سے بھی بچنے کی کوشش کر رہا ہو تو۔

گزشتہ چھ برس کے عرصے میں یہ سرمایہ کاری مسلسل بڑھی ہے۔ سعودی عرب کے 'سوورِن ویلتھ فنڈ‘ جو ریاستی ملکیتی فنڈ ہے، اس کے دنیا کی بڑی کمپنیوں مثلاﹰ  ایمازون، گوگل، ویزا، مائیکروسافٹ، ڈزنی، نینٹنڈو، اوبر، پے پال اور زوم سمیت کئی دیگر کمپنیوں میں شیئرز ہیں۔

یہ کارنیوال نامی ہالیڈے کمپنی، انگلش فٹ بال پریمیئر لیگ کی ٹیم نیو کاسل یونائیٹڈ اور ایک متنازعہ پروفیشنل گالف ٹورنامنٹ کی بھی مالک ہے۔ اس سعودی فنڈ کے بلیک راک نامی دنیا کے سب سے بڑے سرمایہ کاری کو سنبھالی والی کمپنی کے ساتھ بھی اہم تعلق ہے۔

سعودی سرمایہ کاری میں تیز رفتار اضافہ

سعودی عرب کے دنیا کے ان بڑے ناموں والی اہم کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی بڑی وجہ اس کا 'پبلک انویسٹمنٹ فنڈ‘ ہے جس کا مخفف پی آئی ایف ہے۔

دنیا کے زیادہ تر ممالک کے سوورِن ویلتھ فنڈز ہیں اور سعودی عرب بھی اس سے باہر نہیں ہے۔ سعودی پبلک فنڈ 1971ء میں قائم کیا گیا تھا۔ اب سے کچھ عرصہ قبل تک یہ فنڈ عام طور پر داخلی سطح چھوٹی موٹی سرمایہ کاری کرتا رہا ہے اور بین الاقوامی سطح پر اس کا کوئی بڑا کردار نہیں تھا۔

Newcastle United Übernahme wurde genehmigt
سعودی عرب نے 2021ء کے اواخر میں انگلش فٹبال کلب نیو کاسل یونائیٹڈ کے 80 فیصد شیئرز خرید لیے تھے۔تصویر: Owen Humphreys/PA Wire/empics/picture alliance

مگر یہ صورتحال 2015ء میں اس وقت تبدیل ہونا شروع ہوئی جب سعودی عرب کے ولی عہد  مگر عملاﹰ حکمران محمد بن سلمان نے سعودی بادشاہت کے پیسے کو بین الاقوامی سرمایہ کاری کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔ محمد بن سلمان نے ملک کو جدید بنانے کے منصوبے اور تیل پر منحصر معیشت کو زیادہ متنوع بنانے کے لیے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ سے فائدہ اٹھانےکا سلسلہ شروع کیا۔

2016ء میں یہ فنڈ اس وقت بین الاقوامی خبروں کا مرکز بنا جب اس نے 3.5 بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری سفری سہولیات فراہم کرنے والی کمپنی اوبر میں کی۔

دنیا کا سب سے بڑا فنڈ بنانے کا منصوبہ

سعودی پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کی عوامی سطح پر دستیاب معلومات کے مطابق اسے 2030ء تک دنیا کا سب سے بڑا اور 'سب سے زیادہ با اثر‘ سوورن ویلتھ فنڈ بنائے جانے کا منصوبہ ہے، جس کے اثاثوں کو دو ٹریلین ڈالر تک پہنچانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ اس وقت اس کے اثاثے 620 بلین امریکی ڈالر کے برابر ہیں اور یہ 2015ء کے مقابلے میں چار گنا ہیں۔

اس وقت دنیا کا سب سے بڑا فنڈ ناروے کا سوورِن ویلتھ فنڈ ہے، جس کے اثاثوں کی ملکیت 1.4 ٹریلین ڈالر ہے۔ سعودی پی آئی ایف اس وقت چھٹے نمبر پر ہے۔

لیکن جیسے جیسے پی آئی ایف اور اس کے پیھچے کارفرما مطلق العنان رہنما محمد بن سلمان جتنے زیادہ طاقتور ہوتے جا رہے ہیں، کچھ مبصرین کے خدشات میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ کیا یہ تمام بین الاقوامی سرمایہ کاری سیاسی قوت بھی فراہم کرے گی؟ کیا سعودی عرب پی آئی ایف کو اپنی خارجہ پالیسی کے اہداف کے لیے تعاون حاصل کرنے کے لیے بھی استعمال کرے گا؟

خدشات میں اضافہ

گزشتہ برس کے اوخر میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سعودی عرب کی طرف سے نیو کاسل یونائیٹڈ کو خرید لینے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ انسانی حقوق کے خلاف سعودی اقدامات کے دھبوں کو کھیلوں کے ذریعے دھونے کی کوشش ہے۔ ایل آئی وی گالف ٹورنامنٹ اور سعودی عرب میں فارمولا کار ریسوں کا سعودی عرب میں انعقاد بھی بعض ناقدین کے اسی طرح کے خدشات کا سبب بنا ہے۔

اسی طرح مائیکرو بلاگنگ کمپنی ٹوئٹر میں پی آئی ایف کی بالواسطہ سرمایہ کاری پر بھی سوال اٹھائے گئے کہ آیا اب یہ کمپنی اب بھی اسی طرح اس معاملے کو اٹھا سکے گی جیسا کہ 2015ء میں سعودی جاسوسی کے اسیکنڈل کو اٹھایا گیا گیا۔ ٹوئٹر کی طرف سے اس بات کی تردید کی گئی ہے کہ سرمایہ کاروں کو اس کے کام کرنے کے طریقہ کار پر کوئی اثر ہوتا ہے۔

سعودی عرب پی آئی ایف اور دیگر ایسے فنڈز کے ذریعے جن میں یہ سرمایہ کاری کر چکا ہے، مثلاﹰ جاپان کا سافٹ بینک، امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں کئی بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے۔ ایک امریکی صحافی کارا سوِشر کا کہنا ہے، ''اگر آپ سعودیوں کو عالمی منظر نامے سے ہٹا دیں، سب کچھ ڈھے جائے گا۔‘‘

Saudi Arabien Protest in Berlin
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب سرمایہ کاری کو اپنے خلاف تنقید کو دبانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔تصویر: John Macdougall/AFP/Getty Images

محققین کا کہنا ہے کہ چونکہ پی آئی ایف کا کاروبار شفاف نہیں ہے اس لیے یہ بات بالکل درست طور پر جاننا مشکل ہے کہ یہ فنڈ اصل میں کیا کچھ خرید رہا ہے۔ 2019ء میں جرمن انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل اینڈ سکیورٹی افیئرز کی طرف سے شائع کردہ ریسرچ پیپر سے معلوم ہوا کہ سعودی پبلک انویسٹمنٹ فنڈ نے یورپ یا خاص طور پر جرمنی میں کوئی براہ راست سرمایہ کاری نہیں کی تھی۔

کولمبیا یونیورسٹی کے ریسرچر ینگ نے جو خلیجی ریاستوں کے سوورن ویلتھ فنڈز کے حوالے سے ایک کتاب بھی لکھ رہے ہیں، ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ خلیجی فنڈز اب یونان میں دفاعی شعبے میں اور جرمنی میں توانائی کے معاہدوں پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔

جرمن شہر ہیمبرگ میں قائم GIGA انسٹیٹیوٹ آف مڈل ایسٹ اسٹڈیز سے منسلک ایسوسی ایٹ سارا بازوبندی کے مطابقتیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد خلیجی ریاستوں کی طرف سے یورپ میں سرمایہ کاری کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں، ''یہ بات ذہن میں رکھنا اہم ہے کہ ان فنڈز کی طرف سے سب سے اہم چیز ابھی تک معاشی فائدے کو زیادہ سے زیادہ کرنا ہے۔‘‘

مگر ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے، ''ہر سرمایہ کاری کا مقصد اصل میں سرمایہ کار کی طرف سے کسی مفاد کا حصول ہی ہوتا ہے۔ اور اگر سرمایہ کار ایک حکومت ہو تو پھر اس میں غیر معاشی مفادات کا عمل دخل بھی ہو سکتا ہے۔

شیئر کیتھرین (ا ب ا/ع ب)