1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب کو جوہری ٹيکنالوجی کی فراہمی کا منصوبہ، تفتيش شروع

20 فروری 2019

امريکی قانون سازوں نے اس معاملے کی تفتيش کے احکامات جاری کر ديے ہيں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظاميہ کے چند افراد نے سلامتی سے متعلق تحفظات کے باوجود سعودی عرب کو جوہری ٹيکنالوی فراہم کرنے کے ايک منصوبے پر کام کيا۔

https://p.dw.com/p/3DhrK
USA Michael Flynn
تصویر: picture-alliance/ZUMA Wire/B. Sheehan

امريکا کی قومی سلامتی سے متعلق اہلکاروں کے تحفظات کے باوجود، وائٹ ہاؤس کے سینیئر اہلکاروں نے سعودی عرب کو جوہری ٹيکنالوجی منتقل کرنے کے ايک منصوبے ميں نماياں کردار ادا کيا۔ يہ انکشاف کانگريس کی ايک تازہ رپورٹ ميں واشنگٹن انتظاميہ کے ہی خفيہ ذرائع کے حوالے سے کيا گيا ہے۔ امريکا کی دونوں سياسی جماعتوں کے قانون ساز اس بارے ميں تشويش کا شکار ہيں کہ اگر متعدد اہم امور پر يقين دہانی کے بغير ہی رياض حکومت کو ايسی معلومات فراہم کی گئيں، تو وہ جوہری ہتھيار تيار کر سکتی ہے۔

کانگريس کی ايک کميٹی نے اس معاملے کی تحقيقات شروع کر دی ہيں۔ امريکی انتظاميہ کے چند اہلکاروں نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر يہ دعویٰ کيا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ ايک ايسی ڈيل کو پايہ تکميل تک پہنچانے کے معاملے ميں ’غير معمولی‘ اقدامات ديکھے گئے، جس سے صدر ڈونلد ٹرمپ کے حاميوں کو مالی فوائد پہنچ سکتے ہيں۔ سعودی عرب ميں متعدد نيوکليئر ری ايکٹرز کی تعمير کا يہ مجوزہ منصوبہ اب تفتيش کی زد ميں ہے۔ تفتيش ميں اس بات کا تعين کيا جانا ہے کہ آيا انتظاميہ کے چند اہلکاروں نے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے ليے سلامتی کے حوالے سے تحفظات کو نظرانداز تو نہيں کيا۔

وائٹ ہاؤس کی جانب سے اس معاملے پر فی الحال کوئی رد عمل ظاہر نہيں کيا گيا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کو جوہری ٹيکنالوی فراہم کرنے کے معاملے ميں مبينہ طور پر دخل اندازی يا جلد بازی سابق مشير برائے قومی سلامتی مائيکل فِلن نے کی۔ فلن کو سن 2017 کے اوائل ميں برطرف کر ديا گيا تھا تاہم نيشنل سکيورٹی کونسل کے رکن ڈيرک واروی نے اس مجوزہ منصوبے پر کام جاری رکھا۔

يہ رپورٹ ايک ايسے موقع پر جاری کی گئی ہے، جب امريکی قانون ساز پہلے ہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظاميہ کے رياض حکومت کے ساتھ قريبی روابط کے حوالے سے شکوک و شبہات رکھتے ہيں۔ واضح رہے کہ اس معاملے پر صدر کی اپنی جماعت ری پبلکن پارٹی کے قانون ساز بھی تحفظات کا اظہار کر چکے ہيں۔ انتظاميہ نے ايران کو سفارتی سطح پر تنہا کرنے کے ليے مشرق وسطیٰ کے ليے اپنی خارجہ پاليسی ميں سعودی عرب کو خاصی اہميت دے رکھی ہے۔ دريں اثناء يمن کی متنازعہ جنگ ميں سعودی عرب کے کردار کے حوالے سے تحفظات اور واشنگٹن پوسٹ کے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد عالمی سطح پر تنقيد کو بھی ٹرمپ انتظاميہ نے کافی حد تک نظرانداز کيا۔ ٹرمپ کے داماد اور اعلیٰ مشير جارڈ کُشنر بھی مشرق وسطی ميں پيام امن کا ايک منصوبہ تيار کر رہے ہيں، جس ميں امکاناً سعودی عرب کے ليے معاشی فوائد شامل ہيں۔

ع س / ع ت، نيوز ايجنسياں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید