1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب میں انتہا پسندی کے مقابلے کی آن لائن کوششیں

عاطف بلوچ7 مارچ 2016

دو سعودی بچے، ایک سنی اور دوسرا شیعہ، کلاس فیلو تھے اور دوست بھی۔ دونوں ساتھ ہی بیٹھتے تھے لیکن ان کے استاد نے ان میں فرقے کی بنیاد پر تفرقہ ڈالنے کی کوشش کی۔ لیکن والدین نے ایسا نہ ہونے دیا۔

https://p.dw.com/p/1I8lY
Saudi-Arabien Islam Tauben in Mekka
سعودی عرب کا شمار دنیا کے قدامت پسند ترین ملکوں میں ہوتا ہےتصویر: picture-alliance/AFP Creative/H. Ammar

یہ ہے یو ٹیوب پر جاری ہونے والی ایک ویڈیو جس میں والدین نے بچوں کو سمجھایا کہ فرقہ واریت سے دور رہتے ہوئے مختلف فرقوں کے لوگ آپس میں دوست ہو سکتے ہیں۔ ایک سعودی مرکز کی یہ پروڈکشن دراصل ملک میں مذہب اور فرقے کی بنیاد پر پیدا کی جانے والی نفرت کے خلاف کوشش ہے۔ سعودی عرب کے مرحوم بادشاہ عبداللہ نے یہ منصوبہ شروع کیا تھا تاکہ سوشل میڈیا کے ذریعے فرقہ واریت کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکے۔

سعودی عرب کا شمار دنیا کے قدامت پسند ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ ریاض پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ وہ اٹھارہویں صدی کے کٹر مذہبی رہنما شیخ محمد عبدالوہاب کے نظریات کو فروغ دیتے ہوئے اسلامی انتہا پسندی کو ہوا دیتا رہا ہے۔

عبدالوہاب کے نظریات کو فرقہ واریت کے پیچھے ایک اہم محرک قرار دیا جاتا ہے۔ دہشت گرد تنظیم القاعدہ اور انتہا پسند گروپ داعش بھی انہی نظریات کا پرچار کرتے ہیں۔ تاہم سعودی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس انتہا پسندی کے خاتمے کی کوشش میں ہے۔ ریاض میں قائم ’کنگ عبدالعزیز سینٹر فار نیشنل ڈائیلاگ‘ نے مذہبی برداشت کی خاطر مختلف منصوبے بھی شروع کر رکھے ہیں۔

اس سینٹر سے وابستہ میڈیا امور کے ماہر حبیب الشمیری کہتے ہیں کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ داعش کے انتہا پسندانہ نظریات کا مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟ سن 2014 میں شام اور عراق کے وسیع تر علاقوں کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد داعش اب آن لائن بھی اپنے نظریات کا پرچار کر رہی ہے۔ داعش کی انٹرنیٹ پر موجودگی کی وجہ سے سعودی حکام نے بھی سوشل میڈیا پر مذہبی برداشت کے حق میں مہم شروع کر رکھی ہے۔

اس سینٹر نے مذہبی برادشت پر ویڈیو بنانے کے ایک مقابلے کا بھی اہتمام کیا تھا، جس میں مجموعی طور پر 128 ویڈیوز کو شامل کیا گیا تھا۔ ان میں سے پانچ بہترین ویڈیوز کے پروڈیوسرز میں چالیس ہزار امریکی ڈالر کی نقد رقوم بھی تقسیم کی گئی تھیں۔ یہ امر اہم ہے کہ سعودی عرب میں یو ٹیوب استعمال کرنے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

سوشل میڈیا پر مہم کے علاوہ یہ سینٹر سنی اور شیعہ مذہبی رہنماؤں کے مابین سیمینارز، کانفرنسوں اور اجتماعات کا اہتمام بھی کرتا ہے۔ مقصد یہی ہے کہ مذہبی برداشت کو فروغ دیا جائے۔ سعودی عرب کی مجموعی آبادی میں شیعہ افراد کا تناسب صرف دس فیصد بنتا ہے۔ لیکن یہ اقلیتی کمیونٹی مرکزی حکومت سے کچھ ناراض بھی رہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ سنی اکثریتی ملک میں اسے امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

Anti-Terror-Konferenz in Kairo zu Religion und Extremismus 03.12.2014
اسلام کے مختلف فرقوں کے مابین مکالمت کی کوششیں جاری ہیںتصویر: AFP/Getty Images/K.Desouki

یہ سینٹر تیرہ برس قبل بنایا گیا تھا لیکن ابھی تک کچھ حلقے اس کی کامیابی کے حوالے سے تحفظات بھی رکھتے ہیں۔ سنی رہنما اکثر ہی کچھ ایسے سیشنز میں شرکت سے انکار کر دیتے ہیں، جن میں شیعہ یا لبرل حلقے بھی مدعو ہوتے ہیں۔ ایک امام نے تو اس سینٹر کو ’شیطانی مرکز‘ قرار دے دیا تھا تاہم بعد ازاں اس نے اس سینٹر کی رکنیت بھی اختیار کر لی تھی۔

سماجی سطح پر فعال تنظیموں اور انسانی حقوق کے لےسرگرم اداروں نے سعودی حکومت کے اس منصوبے کو سراہا ہے۔ قطیف میں ہیومن رائٹس فرسٹ سوسائٹی کے صدر ابراہیم المقیطیب کا البتہ کہنا ہے کہ سعودی حکومت کو اس حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہے۔

المقیطیب نے اے ایف پی کو بتایا، ’’آپ کو قانون بنانا پڑتا ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ ہم سب برابر ہیں۔‘‘ المقیطیب کے بقول انٹرنیٹ کے ذریعے نفرت پھیلانے والوں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے قوانین ہی درکار ہوتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں