1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب: سب سے بڑی علاقائی فوجی مشقیں اختتام پذیر

امتیاز احمد10 مارچ 2016

ان فوجی مشقوں کے آخری روز جنگی طیاروں کی گھن گرج کے ساتھ ساتھ صحرا میں ٹینک بھاگ رہے تھے جبکہ آسمان بارود کے دھوئیں سے بھرا ہوا تھا۔ خطے کی اب تک کی یہ سب سے بڑی فوجی مشقیں اپنے اختتام کو پہنچ گئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1IBIr
Saudi-Arabien Militärübung "Thunder"
تصویر: picture-alliance/dpa/Str

سعودی عرب میں ’’ناردرن تھنڈر‘‘ نامی یہ بڑی فوجی مشقیں بارہ روز سے جاری تھیں۔ سعودی حکام کے مطابق ان مشقوں میں مشرق وسطیٰ، افریقہ اور ایشیا کے بیس ممالک شامل تھے۔ ان فوجی مشقوں کے آخری روز سعودی عرب کے شاہ سلمان کے ساتھ ساتھ متعدد غیرملکی رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔ مہمانوں میں پاکستانی وزیراعظم نواز شریف، پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف، مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی، سوڈان کے عمر البشیر اور یمن کے عبد ربو منصور ہادی بھی شامل تھے۔

تمام مہمانوں کو ایک اسٹیج پر بٹھایا گیا تھا جبکہ اپاچی ہیلی کاپٹروں نے راکٹ فائر کرتے ہوئے اپنے اہداف کو نشانہ بنایا۔ ٹینکوں نے اپنے زمینی اہداف کو نشانہ بنایا جبکہ ہیلی کاپٹروں سے رسی کی مدد سے فوجیوں کی چھاپہ مار کارروائیوں کا مظاہرہ بھی کیا گیا۔ آج کی فوجی مشقیں کویت اور عراق کی سرحدوں کے قریب کی گئیں۔

Saudi-Arabien Militärübung "Thunder"
تصویر: imago/ZUMA Press

سعودی عرب کے چیف آف اسٹاف جنرل عبدالرحمان البنیان کا تبصرہ کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’اس خطے میں یہ عرب اور اسلامی افواج کی اب تک کی سب سے بڑی جنگی مشقیں ہیں۔‘‘ تجزیہ کاروں کے مطابق شاہ عبداللہ کی وفات اور شاہ سلمان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے سعودی عرب زیادہ جارحانہ خارجہ پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔

سعودی عرب کے بریگیڈیئر جنرل احمد العسیری کا رواں ہفتے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ جنگی مشقیں خطے میں ’’دہشت گردی کی لعنت‘‘ سے نمٹنے کے لیے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ کسی بھی صورت ایران کے خلاف نہیں ہیں۔

سعودی عرب نے ان جنگی مشقوں کا آغاز ایک ایسے وقت میں کیا، جب ایران کے ساتھ اس کی سفارتی کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔ ان دونوں ملکوں نے اپنے سفارتی تعلقات بھی ختم کر رکھے ہیں جبکہ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ دونوں ملک یمن اور شام میں بھی اپنی پراکسی جنگیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

جنرل احمد العسیری کا ان مشقوں کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ اس پینتیس رکنی اتحاد سے بالکل الگ ہیں، جس کا اعلان دسمبر میں کیا گیا تھا۔ دسمبر میں اس پینتیس رکنی اتحاد کا مقصد بھی دہشت گردی سے نمٹنا بتایا گیا تھا۔

حکام کے مطابق اس نئے اتحاد کا پہلا اجلاس رواں ماہ ہی کیا جائے گا اور اس کا پہلا باقاعدہ اجلاس بھی اسی مہینے ہوگا۔ حکام کی جانب سے یہ تو نہیں بتایا گیا کہ ان جنگی مشقوں میں کس ملک کے کتنے فوجی شریک تھے لیکن سعودی فوجیوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی، مصری، کویتی اور سوڈانی فوجی دیکھے گئے ہیں۔