1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی شاہ سلمان روس میں کتنے ارب ڈالر کے معاہدے کریں گے؟

5 اکتوبر 2017

شام میں ایک دوسرے کے حریف ہونے اور ایران کے حوالے سے اختلافات کے باجود سعودی شاہ اپنے روس کے تاریخی اور پہلے دورے کے دوران توانائی اور دفاع کے شعبوں میں اربوں ڈالر کے معاہدے کریں گے۔

https://p.dw.com/p/2lHe4
Russland Moskau Salman bin Abdulaziz Al Saud von Saudiarabien auf Staatsbesuch
تصویر: picture-alliance/dpa/Sputnik/V. Melnikov

آج ماسکو میں روسی صدر ولادی میر پوٹن کا سعودی شاہ سلمان کا استقبال کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمارے تعلقات کی تاریخ میں کسی بھی سعودی شاہ کا یہ پہلا دورہ ہے۔ اس طرح بذات خود یہ ایک تاریخی واقعہ ہے۔‘‘ ان کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا، ’’مجھے یقین ہے کہ اس دورے سے دونوں ملکوں کے مابین تعلقات مضبوط ہوں گے۔‘‘

روسی صدر کی گرم جوشی کا جواب دیتے ہوئے سعودی شاہ کا کہنا تھا، ’’سلامتی اور امن حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت کو فروغ دینے کے لیے ہم اپنے تعلقات میں مضبوطی چاہتے ہیں۔‘‘

روس کی انٹرفیکس نیوز ایجنسی کے مطابق سعودی شاہ نے روسی صدر سے ملاقات کے دوران یہ بھی کہا ہے کہ ایران کو  مشرق وسطیٰ میں مداخلت بند کرنا ہوگی۔

Russland Moskau Salman bin Abdulaziz Al Saud von Saudiarabien auf Staatsbesuch
تصویر: imago/ITAR-TASS

 قبل ازیں فنانشل ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے روس کے وزیر برائے توانائی الیگزینڈر نوواک کا کہنا تھا کہ اس دورے میں توانائی کے حوالے سے تین ارب ڈالر سے زائد مالیت کے معاہدے کیے جائیں گے: ’’ان میں یہ بھی شامل ہے کہ ایک ارب ڈالر مالیت کا انرجی انویسٹمنٹ فنڈ قائم کیا جائے گا اور ایک عشاریہ ایک ارب ڈالر کی مالیت سے روس کی  پیٹرو کیمیکل کمپنی صیبور سعودی عرب میں ایک پلانٹ تعمیر کرے گی۔‘‘

اسلحے کے انبار بڑھنے لگے، سفارت کاری کا دور ختم؟

روسی روزنامہ بزنس ڈیلی نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ پوٹن اور شاہ سلمان ہتھیاروں کے ایک معاہدے کے حوالے سے بھی مذاکرات کریں گے۔ ان ہتھیاروں کی مالیت تین ارب ڈالر سے زائد ہوگی۔ رپورٹوں کے مطابق ریاض حکومت روس سے ایس چار سو ایئر ڈیفنس سسٹم خریدنا چاہتی ہے۔ العربیہ کی رپورٹوں کے مطابق یہ معاہدہ طے پا گیا ہے۔

روس اور سعودی عرب کا بڑی حد تک خام تیل کی برآمدات پر انحصار ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں تیل کی قیمتیں گرنے سے دونوں ملکوں کی معیشت متاثر ہوئی۔ اس کے بعد اوپیک ممالک نے روس کے ساتھ مل کر خام تیل کی پیداوار کم کرنے پر اتفاق کیا تھا تاکہ تیل کی قیمتیں بڑھ سکیں۔ اب روسی صدر کا اس حوالے سے کہنا تھا، ’’ ممکنہ طور پر پیداوار میں کمی سے متعلق اوپیک معاہدے کو سن دو ہزار اٹھارہ کے اواخر تک بڑھایا جا سکتا ہے۔‘‘ موجودہ معاہدہ مارچ دو ہزار اٹھارہ میں ختم ہو رہا ہے۔

قبل ازیں روسی صدر نے سن دو ہزار سات میں ریاض کا دورہ کیا تھا اور یہ بھی کسی روسی سربراہ حکومت کا سعودی عرب کا پہلا دورہ تھا۔ سن انیس سو چھبیس میں سابق سوویت یونین وہ پہلا ملک تھا، جس نے سعودی عرب کو تسلیم کیا تھا۔ سعودی عرب سرکاری طور پر انیس سو بتیس میں قائم ہوا تھا۔