1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سرحدیں کھول سکتے ہیں، ایردوآن کی یورپی یونین کو دھمکی

25 نومبر 2016

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے یورپی یونین کو دھمکی دی ہے کہ وہ مہاجرین کے لیے ترک سرحدیں کھول سکتے ہیں۔ اس سے قبل یورپی پارلیمان نے ترکی کے ساتھ رکنیت کے حوالے سے جاری مذاکرات منجمد کرنے کی قرارداد منظور کی تھی۔

https://p.dw.com/p/2TEne
Rückführung der Flüchtlinge in die Türkei
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose

یورپی پارلیمان کی جانب سے قرارداد کی واضح اکثریت کے ساتھ منظور کے ردعمل میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین نے اس سے آگے ایک قدم بھی بڑھایا تو ترک سرحدیں کھول دی جائیں گی۔

استنبول میں اپنے ایک خطاب میں ایردوآن نے یورپی یونین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’’میری بات سن لو، اگر تم نے ایک قدم بھی آگے بڑھایا، تو یاد رکھنا کہ ہم سرحدیں کھول دیں گے۔‘‘

رواں برس مارچ میں انقرہ حکومت اور یورپی یونین کے درمیان ڈیل طے پائی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ ترکی مہاجرین کو یورپی یونین پہنچنے سے روکے اور  اس کے بدلے میں ترکی کو یورپی یونین کی رکنیت دینے کے لیے جاری مذاکرات کو جلد از جلد مکمل کیا جائے گا۔ اس معاہدے کے بعد ترکی سے بحیرہء ایجیئن کے راستے یونان پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے، تاہم ترکی میں رواں برس جولائی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد حکومتی کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے، جس میں سرکاری ملازمین کی ایک بڑی تعداد کو برطرف یا معطل کرنے کے علاوہ میڈیا اداروں پر بھی سختی کی گئی ہے۔ ترکی میں محدود ہوتی آزادیء اظہار پر یورپی یونین کی رکن ریاستوں کی جانب کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔

مارچ میں طے پانے والے معاہدے میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا تھا کہ ترک باشندوں کو شینگن ممالک کے لیے ویزا کی پابندی سے آزاد کر دیا جائے گا، تاہم ترکی میں جاری مسائل کے تناظر میں اس نکتے پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔

اس معاہدے کے مطابق ترک شہریوں کو رواں برس اکتوبر سے شینگن ممالک کے ویزہ فری سفر کی اجازت ملنا تھی، جب کہ اس کے لیے ایردوآن نے یورپی یونین کو ڈیڈلائن دی تھی، تاہم اب تک معاہدے کی اس شق پر عمل درآمد ممکن نہیں ہوا ہے۔ ایردوآن کا الزام ہے کہ برسلز اس معاہدے کی پاس داری نہیں کر رہا ہے۔

Flüchtlinge Türkei Izmir
گزشتہ برس قریب ایک ملین مہاجرین ترکی سے یورپی یونین میں داخل ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa/C.Oksuz

اس سلسلے میں جمعرات کے روز یورپی پارلیمان نے ترکی میں جاری کریک ڈاؤن اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تناظر میں ایک قرارداد منظور کی، جس میں یورپی یونین کو تجویز دی گئی ہے کہ وہ انقرہ حکومت کے ساتھ رکنیت سے متعلق مذاکرات اس وقت تک کے لیے منجمد کر دیے، جب کہ ترکی ’غیرمناسب‘ اقدام کا سلسلہ نہیں روکتا۔ اس قرارداد میں دی گئی تجاویز پر عمل درآمد یورپی کمیشن یا کسی بھی رکن ریاست کے لیے لازم نہیں ہے۔

ایردوآن نے اس قرارداد پر اپنے ردعمل میں کہا کہ یورپی یونین لاکھوں مہاجرین کو اپنی جانب بڑھتا دیکھ کر ’بلک بلک کر مدد طلب کر رہی تھی‘۔ ان کا کہنا تھا، ’آپ پھر ہم سے کہیں گے کہ اگر ترکی نے اپنی سرحدیں کھول دی، تو ہم کیا کریں گے۔‘‘

یہ بات اہم ہے کہ گزشتہ برس قریب ایک ملین افراد ترکی سے بحیرہء ایجیئن کے راستے یورپی یونین میں داخل ہوئے تھے، جسے دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپی یونین کو لاحق مہاجرین کا سب سے بڑا بحران قرار دیا جاتا ہے۔ اسی تناظر میں یورپ بھر میں عوامیت پسند اور انتہائی دائیں بازو کی مہاجرین مخالف جماعتوں کی مقبولیت میں خاصا اضافہ دیکھا گیا۔