1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'سب کچھ پہلے سے طے ہے'

کشور مصطفیٰ 16 جولائی 2008

مشرقی افغانستان میں بڑھتی ہوئی شورش نےمغربی دفاعی اتحاد یعنی نیٹو کے دستوں کو دفاعی پوز یشن اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/EdY6
ایک فرانسیسی فوجی اہلکار کابل کے مضافات میں پہرہ دیتے ہوےتصویر: AP

دوسری جانب گزشتہ ویک اینڈ پر امریکہ کے جواٴنٹ چیف آف سٹاف ایڈمرل Michael Mullen نے اسلام آباد کےغیر متوقع دورے پر ایک بار پھر پاکستانی فوج پر دباٴو بنانے کی کوشش کی۔

ایڈمرل نے پاک افواج پر زور دیا تھا کہ وہ پاک۔افغان سرحد پرطالبان عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھے اور ان کے خلاف فوجی کارروائیوں میں مزید شدت اور سختی لائے۔ دریں اثناء پاک افغان۔سرحد پر امریکی قیادت میں اتحادی افواج کی پیش قدمی کے بارے میں خطے کے ساتھ ساتھ مغربی ممالک کے مختلف حلقوں میں بھی تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔

امریکہ میں اس نئی صورتحال پر کس قسم کا رد عمل دیکھنے میں آ رہا ہے‘ اس بارے میں ہم نے رابطہ کیا واشنگٹن میں ڈوئچے ویلے کے نمائندے‘ انور اقبال کے ساتھ۔ انور اقبال کے مطابق پینٹاگون، امریکی تھنک ٹینکس، ڈیمو کریٹس اور ریپبلیکنزسمیت عوام تک کا یہ خیال ہے کہ امریکہ کو افغانستان اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں طالبان کے خلاف تمام ممکنہ عسکری حربے استعمال کرنا چاہییں کیونکہ امریکہ میں عام خیال یہی ہے کہ امریکہ کو اصل خطرہ پاکستان اور افغانستان میں پائی جانے والی انتہا پسندی سے ہے۔

Somalia USA Amerikanischer Luftangriff auf Al-Qaida-Ziel in Somalia
امریکی فضائیہ کا گن شپتصویر: AP

انور اقبال کے مطابق پاک۔افغان سرحدوں پر طالبان کی نقل وحرکت کے کنٹرول میں یا تو اسلام آباد ناکام ہوگیا ہے یا حکام موئثر اقدامات کرنا ہی نہیں چاہتے۔ اس خیال کے تحت امریکہ اب Initiative اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتا ہے۔ انور اقبال نے کہا کہ انکی اطلاعات کے مطابق پاکستانی حکومت نے امریکہ کو غالباً مزید آپریشنز کی باقائدہ اجازت دے دی ہے۔ ممکنہ امریکی فضائی حملوں اور کمانڈو ایکشن کے خلاف شاید اسلام آباد زبانی جمع خرچ کرتے ہوئے مزمت اور بیان بازی کرے تاہم زمینی حقائق یہ ہیں کہ امریکہ کا ایکشن حکومت پاکستان کی اجازت سے عمل میں آئے گا۔