1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سب افغان بچے پہلے تین سال پرائمری اسکولوں کے بجائے مساجد میں

6 دسمبر 2020

افغان وزارت تعلیم نے پورے ملک میں پرائمری اسکول کی عمر کے تمام بچوں کے لیے ایک منفرد اور غیر متوقع منصوبہ تیار کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت سبھی چھوٹے افغان بچے بچیاں پہلے تین سال اسکولوں کے بجائے قریبی مساجد میں پڑھیں گے۔

https://p.dw.com/p/3mI8n
تصویر: Behrouz Mehri/AFP/Getty Images

کابل میں ملکی وزارت تعلیم کا یہ منصوبہ اتنا اچانک اور غیر متوقع ہے کہ اس پر وسیع تر عوامی حلقوں کی طرف سے فوراﹰ شدید تنقید کی جانے لگی ہے۔ اس منصوبے کے تحت پہلی سے تیسری جماعت تک کے تمام طلبا و طالبات کو پرائمری اسکولوں کے بجائے قریبی مساجد میں بھیجا جایا کرے گا۔

جنگ کی وجہ سے تباہ ہوتا بچپن

وزارت تعلیم نے یہ بات اپنے ایک ایسے بیان میں کہی ہے، جو ہفتہ پانچ دسمبر کو رات گئے شائع کیا گیا۔ بیان کے مطابق مساجد میں تعلیم و تربیت کے پہلے تین سال مکمل کرنے کے بعد ان بچوں کو پرائمری کی باقی ماندہ تعلیم کے لیے 'عام غیر مذہبی اسکولوں‘ میں بھیجا جایا کرے گا۔

اسلام کا 'زیادہ مرکزی‘ کردار

افغان وزارت تعلیم نے کہا ہے کہ اس منصوبے کا مقصد بچوں کی تعلیم و تربیت میں مذہب کے طور پر اسلام کے 'زیادہ مرکزی کردار‘ کو یقینی بنانا ہے۔

Flash Galerie Ramadan Afghanistan
تصویر: dapd

افغان خواتین کی بہبود کا امریکی پروگرام ناکامی سے دوچار

اس سرکاری اعلان کے ساتھ ہی افغان عوام کی طرف سے اس پر کھل کر تنقید کی جانے لگی ہے۔ بہت سے عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے کسی بھی اقدام سے ملک میں انتہا پسندی کی مزید حوصلہ افزائی ہو گی۔

اس اعلان کے بعد معروف افغان ادیب اور شاعر یعقوب یسنا نے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا کہ مساجد میں مناسب تعلیمی ماحول نہیں ہوتا اور تعلیم کے ابتدائی تین برسوں کے لیے چھوٹے چھوٹے بچے بچیوں کو مساجد میں بھیجنے کا مطلب تعلیم اور مذہب دونوں کا غلط استعمال ہو گا۔

افغان معاشرے اور تعلیمی شعبے کی 'طالبانائزیشن‘

معروف افغان صحافی مختار وفائی نے کھل کر کہا ہے کہ اس طرح کے کسی بھی فیصلے اور اس پر عمل درآمد کا مطلب افغان معاشرے کو 'طالبانائزیشن‘ کی طرف دھکیلنا ہو گا۔

ایک تہائی افغان بچے تعلیم سے محروم: سیو دی چلڈرن

Afghanistan Schule Unterricht für afghanische Kinder in Helmand
مساجد میں پہلے تین سال کے بعد بچوں کو پرائمری کی باقی تعلیم کے لیے ’عام غیر مذہبی اسکولوں‘ میں بھیجا جایا کرے گاتصویر: DW/R. Elham

ہندو کش کی اس ریاست میں جب 1990ء کی دہائی میں ملکی سطح پر اقتدار طالبان کے پاس تھا، تب بھی وہاں عام اسکول کام کرتے تھے حالانکہ تب اسلامی مدارس یا مذہبی تعلیمی ادارے بھی عام تھے۔

کابل پھر لرز اٹھا، تعلیمی مرکز پر خودکش حملے میں 48 ہلاک

اسی طرح آج بھی طالبان عسکریت پسند اپنے زیر اثر علاقوں میں طلبا کو کہتے ہیں کہ وہ عمومی غیر مذہبی تعلیمی اداروں میں اپنی تعلیم بھی جاری رکھیں لیکن ساتھ ہی دینی مدارس میں بھی باقاعدگی سے پڑھائی کے لیے آتے رہیں۔

لیکن وزارت تعلیم کا یہ نیا منصوبہ تو طالبان کے موقف سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔

عالمی سطح پر افغانستان کا انتہائی برا تعلیمی ریکارڈ

اسکول جانے کی عمر کے لیکن تعلیم کے لیے کسی بھی اسکول میں نہ جانے والے بچوں کی تعداد اور تناسب کے لحاظ سے افغانستان کا شمار پہلے ہی دنیا کے سب سے برے ریکارڈ والے ممالک میں ہوتا ہے۔

طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد بھی لڑکیوں کے لیے تعلیم مشکل

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں تقریباﹰ 3.7 ملین بچے جنگ، غربت اور سماجی اور ثقافتی رکاوٹوں کے باعث اسکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ ایسے بچوں میں سے 60 فیصد لڑکیاں ہوتی ہیں۔

م م / ش ح (ڈی پی اے)