1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سال 2016ء شورش زدہ صوبہ بلوچستان کے لیے کیسا رہا؟

27 دسمبر 2016

تجزیہ کاروں کے مطابق بلوچ مسلح بغاوت اور مذہبی انتہا پسندی سے متاثرہ بلوچستان میں سال 2016ء گوڈ گورننس کے فقدان، مالی بے ضابطگیوں اور عدم استحکام کا سال ثابت ہوا ہے لیکن سکیورٹی کی صورتحال میں کچھ بہتری بھی آئی ہے۔

https://p.dw.com/p/2UuKS
Karte Pakistan Khuzdar Englisch

تجزیہ کاروں کے مطابق رواں سال کے دوران صوبے میں امن و امان کی صورتحال میں نہ صرف کوئی نمایاں بہتری واقع نہیں ہوئی بلکہ شدت پسند گروپوں کے حملوں میں سینکڑوں قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئیں۔

البتہ سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کے دور میں بلوچستان میں قیام امن کے لئے سال 2016ء میں جو کومبنگ آپریشن شروع کیا گیا وہ کافی تک کامیاب رہا۔ اس آپریشن کے دوران جہاں ایک جانب کالعدم شدت پسند تنظیموں کے کئی اہم سرکردہ رہنما سکیورٹی فورسز کے ساتھ مقابلوں میں مارے گئے وہیں عسکریت پسندوں اور علیحدگی پسند بلوچوں کی جانب سے ہتھیار پھینکنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ رواں سال صوبے کے مختلف علاقوں میں 800 سے زائد مسلح باغیوں نے ہتھیار پھینک کر قومی دھارے میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔

Pakistan Militär und Regierungsbeamte beraten über die Sicherheitslage in der Provinz BalochistanMilitär und Regierung Beamten beraten über die Sicherheit lage in der Provinz Balochistan.   Militär und Regierung Beamten beraten über die Sicherheit lage in der Provinz Balochistan.
سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کے دور میں بلوچستان میں قیام امن کے لئے سال 2016ء میں جو کومبنگ آپریشن شروع کیا گیا وہ کافی تک کامیاب رہاتصویر: Abdul Ghani Kakar

ہتھیار ڈالنے والوں میں کالعدم بلوچ ریپبلکن آرمی، بلوچ لبریشن فرنٹ، لشکر بلوچستان، یونائیٹڈ بلوچ آرمی اور دیگر تنظیموں کے کئی اہم کمانڈر بھی شامل ہیں۔ ہتھیار ڈالنے والے عسکریت پسندوں کی بحالی کے لیے حکومت پرامن بلوچستان پیکیج کے تحت کام کر رہی ہے۔

بیرون ملک مقیم ناراض بلوچ رہنماؤں کے ساتھ گزشتہ سال جن مذاکرات کا آغا کیا گیا تھا، رواں سال تمام تر کوششوں کے باوجود ان مذاکرات میں کوئی بڑی اور مثبت پیش رفت سامنے نہیں آ سکی۔

سال 2016 ء میں صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں د ہشت گردی کے کئی اہم واقعات پیش آئے، جن میں آٹھ اگست کو سول ہسپتال کوئٹہ میں ہونے والا خودکش حملہ سب سے زیادہ ہولناک تھا۔ اس حملے کے نتیجے میں 100 سے زائد وکلاء ہلاک اور درجنوں دیگر زخمی ہوئے۔

شدت پسندوں نے 24 اکتوبر کوکوئٹہ سریاب میں واقع پولیس ٹریننگ کالج پر بھی حملہ کیا جو کئی گھنٹوں تک جاری رہا۔ اس حملے میں 65 پولیس اہلکار ہلاک جبکہ سو سے زائد دیگر اہلکار زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کے اکثر بڑے واقعات میں ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش اور لشکر جھنگوی العالمی نے قبول کی۔

رواں برس بلوچستان میں پولیس نے صوبے کے مختلف علاقوں میں مجموعی طور ایک ہزار سے زائد ٹارگٹڈ آپریشن کیے، جن کے دوران 368 ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔ ان کارروائیوں کے دوران بڑے پیمانے پر اسلحہ گولہ و بارود اور منشیات بھی برآمد کی گئیں۔

کوئٹہ میں سانحہ آٹھ اگست کی تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ نے جو انکوائری کمیشن تشکیل دیا تھا اس کی رپورٹ بھی 13 دسمبرکو جاری کی گئی۔

اس رپورٹ میں ملک میں نیشنل ایکشن پلان، سکیورٹی ایجنسیز اور حکومت کی کارکردگی پر کئی سوالات اٹھائے گئے۔ کمیشن نے امن و امان کی بحالی کے حوالے سے وزیراعلیٰ بلوچستان اور وزیر داخلہ کی کارکردگی پر بھی تنقید کی۔

اگرچہ صوبائی حکومت نےاس رپورٹ کا خیر مقدم کیا ہے تاہم وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر تحفظات ظاہر کیے۔

بلو چستان کے لئے موجودہ سال جہاں دیگر کئی حوالوں سے اہم رہا وہیں صوبے کے دور افتادہ ضلع نوشکی کے علاقے میں 21 مئی کو قومی شاہراہ پر امریکی جاسوس طیارے کے ایک حملے میں تحریک طالبان افغانستان کے سربراہ ملا اختر منصور بھی مارے گئے۔

Pakistan Nach einem Drohnenangriff
ضلع نوشکی کے علاقے میں 21 مئی کو قومی شاہراہ پر امریکی جاسوس طیارے کے ایک حملے میں تحریک طالبان افغانستان کے سربراہ ملا اختر منصور بھی مارے گئےتصویر: Getty Images/AFP

اختر منصور کو اس وقت نشانہ بنایا گیا، جب وہ ایک نجی کار میں کوئٹہ کی جانب جا رہے تھے۔ اس حملے کے بعد امریکی حکومت کے خلاف مقامی افراد کی درخواست پر نوشکی کے ایک تھانے میں رپورٹ بھی درج کی گئی۔

اختتام پذیر ہونے والے رواں سال کے دوران بلوچستان میں مالی بے ضابطگیوں میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا اور مختلف محکموں میں اربوں روپے کی بدعنوانی کی شکایات سامنے آئیں۔

بد عنوانی کے جو کیسز منظر عام پر آئے ان میں سب سے اہم اسکینڈل محکمہ خزانہ کا تھا۔ قومی احتساب بیورو، " نیب " نے چھ مئی کو کوئٹہ میں بد عنوانی کے الزام میں صوبائی سیکرٹری خزانہ مشتا ق رئیسانی کو گرفتار کیا۔

نیب کی کارروائی کے دوران مشتاق رئیسانی کے گھر سے 65 کروڑ روپے کی نقدی سونا اور پرائز بانڈز برآمد کئے گئے۔ اس کارروائی کے بعد صوبائی مشیر خزانہ خالد لانگو بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہوئے اور نیب نے انہیں گرفتار کیا۔

حال ہی میں21 دسمبر کو نیب نے مشتاق رئیسانی کی پلی بارگیننگ کی درخواست بھی منظور کی ہے۔ پلی بارگین کے تحت مشتاق رئیسانی اور اس کیس کے ایک اور اہم ملزم سہیل مجید شاہ دو ارب روپے سے زائد کی رقم نیب میں جمع کرائیں گے۔

کرپٹ سرکاری اہلکاروں کے خلاف کارروائیوں کے دوران یہ انکشاف بھی ہوا کہ بلوچستان میں پبلک سروس کمیشن نے کروڑوں روپے کے عوض بڑے پیمانے پر مختلف محکموں میں نااہل افراد کو اہم پوسٹوں پر تعینات کروایا ہے۔

Pakistan Balochistan Sarfaraz Bugti Minister PK
تصویر: DW/A. Ghani Kakar

نیب نے جعلی بھرتیوں کے اس اسکینڈل میں بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے سابق چیئرمین اشرف مگسی اور دو دیگر اہلکاروں کو گرفتار کیا۔

رواں برس گوادر میں بین الاقوامی تجارتی سرگرمیوں کا بھی باقاعدہ آغاز ہوا اور چینی تجارتی سامان سے لدا 60 ٹرکوں پر مشتمل قافلہ 12 نومبر کو اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کے ذریعے گوادر پہنچایا گیا۔

13نومبر کو پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی افتتاحی تقریب میں پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سمیت چین اور 15 دیگر ممالک کے سفیروں نے بھی شرکت کی۔

پہلے قافلے میں چینی کنٹینروں میں جو سامان لایا گیا وہ گوادر سے بذریعہ بحری جہاز مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک بھجوایا گیا۔

گزشتہ سال کی طرح پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے حوالے سے بلوچستان میں سیاسی جماعتوں کے اعتراضات اس سال بھی جاری رہے۔

صوبے کی پشتون اور بلوچ قوم پرست جماعتوں نے مرکزی حکومت پر الزام لگایا کہ حکومت اکنامک کوریڈور منصوبے میں زیادہ توجہ مشرقی روٹ پر دے رہی ہے اور اس ضمن میں پنجاب کونوازا جا رہا ہے۔