1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سادہ اور کم خرچ شادیاں، کیا معاشرے کی بھلائی اسی میں ؟

بینش جاوید
2 جنوری 2019

حال ہی میں چند پاکستانی جوڑوں نے عام روایت سے ہٹ کر سادگی سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان شادیوں پر بہت کم پیسے خرچ ہوئے۔ معاشرے کے کئی حلقوں کی جانب سے اس فیصلے کو سراہا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3Atjw
Hochzeit Saadia Subhan
تصویر: Privat

سعدیہ سبحان اسلام آباد کی رہائشی ہیں۔ سعدیہ اور سبحان اسلم اچھے دوست تھے۔ دونوں نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے والدین سے اس خواہش کا اظہار کیا۔ دونوں کے والدین  کو اس رشتے پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ لیکن سعدیہ اور سبحان نے اپنے والدین کو صرف شادی کی خبر نہ سنائی انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ سادگی کے ساتھ اپنی شادی عدالت میں کرنا چاہتے ہیں۔ سعدیہ نے ڈی ڈبلیو سے اپنے اس فیصلے کر بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’ اپنے والدین کو اس فیصلے پر منوانا آسان نہ تھا۔ وہ پریشان بھی تھے اور رشتہ داروں کی جانب سے اٹھنے والے اعتراضات سے خوفزدہ بھی تھے۔‘‘

سعدیہ کہتی ہیں کہ وہ طلاق یافتہ ہوں  اس لیے میرے والدین میرے مستقبل کے شوہر اور میری عدالت میں شادی کرنے کے فیصلے سے کچھ حد تک پریشان بھی تھے۔‘سعدیہ کو اپنے شوہر اور اپنےسسرال کی جانب سے مکمل حمایت ملی اور یہ جوڑا اپنی والدین کی خوشی اور ان کی موجودگی میں  سادگی کے ساتھ عدالت میں شادی کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

سوشل میڈیا پر چند دن قبل ایک اور جوڑے کی تصاویر بھی وائرل ہوئیں جنہوں نے اپنے اہل خانہ کی شمولیت کے ساتھ صرف بیس ہزار روپے میں شادی کی۔ پاکستانی صحافی فاریہ سحر سید کہتی ہیں کہ اب بہت سے پاکستانی جوڑے سادگی سے شادی کرنے کا فیصلہ کر رہے ہیں۔ لیکن ایک اچھی اور شان و شوکت سے کی جانے والی شادی اب بھی بہت سے لوگوں کی خواہش ہے۔ اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے وابستہ صحافی راحل بیگ کا کہنا ہے کہ وہ چاہتی تھی کہ ان کی شادی سادگی اور کم خرچے کے ساتھ ہو لیکن ایسا نہیں ہوا۔ راحل کا کہنا ہے،’’میری شادی پر بہت خرچہ ہو۔ اس وقت میں ایک سادہ شادی چاہتی تھی جس میں صرف میرے اور میرے شوہر کا خاندان شامل ہو، لیکن میرے والدین نہیں مانے۔ شادی میں مزہ تو بہت آیا لیکن بہت پیسے ضائع بھی ہوئے۔‘‘

Hochzeit Saadia Subhan
تصویر: Privat

کینیڈا میں رہائش پذیر پاکستانی شہری صالحہ خان نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’ اب کچھ شادیاں ہفتوں تک چلتی ہیں جن میں کئی فنکشنز کیے جاتے ہیں۔ سوچیں اس سب پر کتنا پیسہ خرچ ہوتا ہے۔‘‘

اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے ایک نوجوان شہری عمار سید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’  شادی کرنا بوجھ نہیں ہونا چاہیے، آج کل شادی کرنے کے لیے بہت بڑی رقم درکار ہوتی ہے۔‘‘ پاکستانی صحافی ثاقب تنویر نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’ پاکستانی مڈل کلاس فیملی اپنے بچوں کی شادیاں کرنے کے لیے عمر بھر پیسے جمع کرتی ہے، اب یہ ختم ہونا چاہیے۔‘‘

جرمنی میں رہائش پذیر پاکستانی نژاد عمران مہر کہتے ہیں کہ انہوں نے بہت سادگی سے شادی کی، اگلے دن ہی وہ اور ان کی اہلیہ تعلیم حاصل کرنے کے مقصد سے جرمنی پہنچ گئے۔  عمران نے بتایا،’’ وہ پیسہ جو شادی پر خرچ ہونا تھا اس پیسے سے میں نے اور میری بیوی نے جرمنی میں تعلیم حاصل کی، ہم دونوں کو اس بات پر فخر ہے۔‘‘

اس بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ پاکستانی معاشرہ جہاں شادی ایک بہت بڑا معاشی بوجھ بن جاتا ہے وہاں کچھ نوجوانوں کے فیصلے اس روایت کو تبدیل کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے یا نہیں۔ لیکن اپنے اس فیصلے کو وہ یقینی طور پر ایک اچھی مثال قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

کم عمری کی شادیاں، مختلف ملکوں کو اربوں ڈالر نقصان

’جرمنی میں انوکھی شادی‘ تقریباً تمام مہمان سزا یافتہ