1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سابقہ نازی اذیتی مرکز کے محافظ پر مقدمہ شروع

17 اکتوبر 2019

جرمن شہر ہیمبرگ میں نازی دور حکومت کے ایک اذیتی مرکز کے ایک سابق گارڈ کے خلاف مقدمے کا آغاز ہو گیا ہے۔ محافظ کو پانچ ہزار سے زائد انسانوں کے قتل میں شریک ہونے کے الزام کا سامنا ہے۔

https://p.dw.com/p/3RRFE
Deutschland | Prozess gegen ehemaligen SS-Wachmann
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Kirchner

ہیمبرگ کی عدالت میں وکیل استغاثہ نے ملزم برونو ڈی کو نازی حکومت کی 'قتل کی مشین کی گراری کا ایک دندانہ‘ قرار دیا۔ وکیل استغاثہ کو یقین ہے کہ برونو ڈی نے جانتے ہوئے یہودی قیدیوں کی لرزہ خیز ہلاکتوں میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اس کے علاوہ وہ دوسرے قیدیوں پر ظلم روا رکھنے میں بھی شامل رہا تھا۔

نازی دورِ حکومت کے دوران سترہ سالہ برونو ڈی کو اشٹٹ ہوف کے اذیتی مرکز میں تعینات کیا گیا تھا۔ اس اذیتی مرکز میں ایک لاکھ بیس ہزار افراد کو مقید کیا گیا اور ان میں سے پینسٹھ ہزار موت کی گھاٹ اتار دیے گئے تھے۔ اس مقدمے میں ترانوے سالہ ڈورا روتھ ایک گواہ کے طور پر شریک ہیں۔

ڈورا روتھ اور ان کی والدہ کو بھی اشٹٹ ہوف کے قید خانے میں ڈالا گیا تھا۔ روتھ کی والدہ تو اذیتی مرکز میں دم توڑ گئیں لیکن وہ حیران کن طور پر تمام صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے زندہ بچ گئیں۔ عدالت کو ڈورا روتھ نے اذیتی مرکز کے اندرونی حالات سے مطلع کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس قید خانے میں دوسرے بے شمار قیدیوں کی طرح دن رات بھوکی رکھی گئی تھیں۔ روتھ کے مطابق فاقوں سے بہت سارے لوگ مر گئے لیکن وہ معجزانہ طور پر بچ گئی تھیں۔

Polen KZ Stutthof
اشٹٹ ہوف اشٹٹ ہوف اذیتی مرکز میں ایک لاکھ بیس ہزار افراد کو مقید کیا گیاتصویر: picture-alliance/NurPhoto/M. Fludra

اشٹٹ ہوف میں ہزاروں قیدیوں کو صرف تشدد سے ہی نہیں ہلاک کیا گیا بلکہ بہت سے انسان فاقوں سے بھی موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ قیدیوں کو بغیر خوراک کے مشقت میں مصروف رکھا جاتا تھا۔ اس مرکز کی نگرانی پچیس بلند ٹاورز سے کی جاتی تھی اور کوئی بھی شخص معمولی سے غلطی پر بھی ہلاک کر دیا جاتا تھا۔ اس مرکز میں سینکڑوں قیدیوں کو گیس چیمبرز میں جھونک دیا گیا تھا۔

اُس وقت سترہ سالہ محافظ برونو ڈی باقاعدگی سے نگرانی کے ٹاور پر چڑھ کر قیدیوں پر نگاہ رکھنے میں مصروف رہتا تھا۔ وہ سن 1944 سے 1945 تک محافظ کے فرائض انجام دیتا رہا تھا۔ ریاستی استغاثہ کا کہنا ہے کہ برونو ڈی سکیورٹی ادارے کا نشانچی بھی تھا لہٰذا وہ ممکنہ طور پر کئی قیدیوں کے مبینہ قتل میں شریک ہوا ہو گا۔

Screenshot DW Video Frau Dora Roth Überlebende KZ Stutthof
ترانوے سالہ ڈورا روتھ کو بھی اشٹٹ ہوف کے قید خانے میں ڈالا گیا تھا لیکن وہ حیران کن طور پر زندہ بچ گئیںتصویر: DW

استغاثہ کے مطابق وہ ایسے بے شمار المناک واقعات کا حصہ تھا جن میں کم از کم پانچ ہزار دو سو تیس انسان مارے گئے تھے۔ عدالت کو بتایا گیا ہے کہ وہ اذیتی مرکز کے قیدیوں کی ہڑتالوں یا احتجاجات کو کچلنے میں بھی شریک رہا تھا۔

برونو ڈی کی اس وقت عمر تہتر برس ہے۔ تمام اذیتی مراکز کے محافظوں کی بیشتر تعداد یا تو ہلاک کر دی گئی ہے یا پھر اپنی طبعی عمر پانے کے بعد اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکی ہے۔

سابقہ نازی محافظ کے خلاف عدالت کو مقدمے کے حوالے سے کئی پیچیدگیوں کا بھی سامنا ہے۔ ان میں ایک یہ بھی ہے کہ آیا برونو ڈی کی صحت بہتر ہے کہ اُسے کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکے۔ عدالتی کارروائی میں اس پہلو پر بھی غور کیا جائے گا کہ سن 1944 میں برونو ڈی بالغ نہیں تھا اور اُسے کم سن افراد کی عدالت میں پیش کیا جائے۔ کئی ماہرین کا خیال ہے کہ برونو ڈی کی اذیتی مرکز کی انسان کش کارروائیوں میں شمولیت جزوی تھی۔

ٹیسا کلارا والتھر (عابد حسین)