1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سائنس دان اب انسانوں کی کلوننگ سے قریب تر

صائمہ حیدر
25 جنوری 2018

چینی سائنسدانوں کے مطابق بندروں کے دو کلون بچے اسی تکنیک کے تحت پیدا کیے گئے ہیں جس کے ذریعے بیس برس قبل بھیڑ کے بچے کی کلونگ کی گئی تھی۔ اس تجربے کے بعد اب انسانوں کی کلوننگ کی راہ میں حائل رکاوٹ دور ہو گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/2rVTA
Rhesusaffen in Indien
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/A. Liedmann

چین میں سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ژونگ ژونگ اور ہوا ہوا نامی بندر کے بچے بالترتیب آٹھ اور چھ ہفتے قبل چائینیز اکیڈمی آف نیرو سائنسز میں کلونگ کے عمل کے ذریعے پیدا ہوئے ہیں۔ یہ بچے سومیٹک سیل نیوکلیئر ٹرانسفر  یا ’ایس سی این ٹی‘ نامی تکنیک کے ذریعے پیدا ہوئے۔  ’سومیٹک سیل نیوکلیئر ٹرانسفر‘ ایسا عمل ہے جس میں سیل کے مرکزے کو منتقل کیا جاتا ہے۔ یہ عمل 1996ء میں پہلی بار ڈولی بھیڑ کی کلوننگ میں بروئے کار لایا گیا تھا۔

بندر کے جڑواں بچوں کی پیدائش ممالیہ جانوروں میں کلون کی پہلی مثال ہیں جنہیں غیر جنینی خلیے سے پیدا کیا گیا ہے۔ اس تجربے کے بعد وہ تکنیکی رکاوٹ دور ہو گئی ہے جو انسانوں کی کلوننگ کی راہ میں حائل تھی۔

محققین اس ٹیکنالوجی کو بہتر بنانے اور جڑواں کلون کی ذہنی اور جسمانی نشوونما کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔  چائینیز اکیڈمی آف نیرو سائنسز کی چیانگ سُن کے مطابق،’’ اس تجربے کے بعد اب  دودھ پلانے والے جانداروں کی کلوننگ کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں رہی۔ یعنی اب سائنس دان انسانوں کی کلوننگ کے بہت نزدیک ہیں۔ تاہم یہ بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ اس بات کے لیے نہ تو معاشرہ ہمیں اجازت دے گا اور نہ ہی ہمارا ایسا کوئی ارادہ ہے۔‘‘

کلونگ کے ذریعے پہلی پیدائش1996ء میں ڈولی نامی بھیڑ کی تھی۔ اس سے قبل بھی مویشیوں، چوہے اور بھیڑوں کی کلوننگ کے تجربےکئے جاتے رہے ہیں۔