1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زمین کی طرف بڑھنے والے سیارچے: ممکنہ تصادم سے تحفظ کیسے؟

مقبول ملک گیورگ بائنلِش / اا
17 اپریل 2019

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ خلا میں زمین کی طرف بڑھنے والے سیارچوں میں سے اگر کوئی کرہ ارض سے ٹکرا گیا، تو کیا ہو گا؟ ایسا تو سوچنا بھی خوفزدہ کر دینے والا ہے۔ لیکن سائنسدان اس ٹکراؤ سے بچاؤ کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔

https://p.dw.com/p/3GxhK
Asteroid 2018 CB fliegt an Erde vorbei
2018 CB نامی سیارچہ زمین کے بہت قریب سے گزرتے ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa/NASA

یورپی یونین کے ایک خلائی تحقیقی منصوبے کا مقصد ہی یہی ہے کہ خلا میں تیرتے ہوئے سیارچوں یا ایسٹیروئڈز (Asteroids) کو زمین کے قریب آنے سے روکا جائے۔ اس کے لیے خلائی اجسام کا نہ صرف مسلسل مشاہدہ کیا جاتا ہے بلکہ ایسی حکمت عملی بھی تیار رکھی جاتی ہے کہ سیارچوں کے زمین سے ممکنہ ٹکراؤ سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔

سیارچے خلا میں انتہائی تیز رفتاری سے حرکت کرتے ہوئے ایسے پتھریلے یا دھاتی اجسام ہوتے ہیں، جن میں سے کئی کا رخ بہت خطرناک بھی ہوتا ہے، یعنی زمین کی طرف۔ یہ سیارچے زمین پر زندگی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ زمین پر درجنوں کلومیٹر قطر کے ایسے ہی ایک سیارچے نے کئی ملین سال پہلے ایسی وسیع تر تباہی پھیلائی تھی کہ ڈائنوسارز کی نسل ہی ختم ہو گئی تھی۔

بارہ ہزار خطرناک سیارچے

تو کیا ہم انسان خود کو ایسے کسی نئے خلائی تصادم سے بچا سکتے ہیں؟ ایلن ہیرس کا تعلق جرمنی کے خلائی تحقیقی ادارے سے ہے اور وہ یورپی یونین کے نِیؤشیلڈ (NeoShield) نامی منصوبے کے سربراہ بھی ہیں۔ ان کی ٹیم کا کام زمین کو سیارچوں کے ساتھ ٹکرانے سے بچائے رکھنا ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ اس وقت کسی سیارچے کے زمین سے ٹکرا جانے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔

Illustration Asteroideneinschlag auf der Erde
65 ملین سال پہلے زمین سے ٹکرانے والا وہ سیارچہ، جو ڈائنوسارز کے خاتمے کی وجہ بنا تھا: اس تصادم کی ایک تصویری مثالتصویر: picture alliance/dpa

خلا میں ایسے ایسٹیروئڈز کی موجودہ معلوم تعداد 12 ہزار کے قریب ہے، جو اصولی طور پر کرہ ارض کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ لیکن ضرورت پڑنے پر سائنسدان زمین کی طرف بڑھنے والے ایسے سیارچوں کا رخ موڑ بھی سکتے ہیں، کئی ٹن وزنی کسی نہ کسی مصنوعی سیارے کے ساتھ۔ ایسے مخصوص سیٹلائٹس کی مدد سے خلا میں سیارچوں کے سفر کی سمت کو جزوی طور پر تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

’خلائی سنوکر‘

سیارچوں کے رخ کو تبدیل کرنا کس طرح کا خلائی سائنسی عمل ہوتا ہے، اس بارے میں جرمن مرکز برائے خلائی تحقیق (ڈی ایل آر) کے ایلن ہیرس کہتے ہیں، ’’یہ ایک بڑا نپا تلا عمل ہوتا ہے۔ آپ کو علم ہوتا ہے کہ کوئی سیارچہ کہاں ہے۔ چونکہ سیارچے اور مصنوعی سیارے کے درمیان کشش ثقل بہت کم ہوتی ہے، اس لیے سیارچے کی سمت میں معمولی سی تبدیلی ہی ممکن ہوتی ہے۔ کافی زیادہ تبدیلی درکار ہو تو اس میں بہت زیادہ وقت لگتا ہے، دس سے لے کر بیس سال تک۔‘‘

اگر کسی سیارچے کے رخ کی تبدیلی کے لیے وقت بہت کم بچا ہو تو پلان بی سے کام لیا جا سکتا ہے، یعنی کسی سیٹلائٹ کو سیدھا سیارچے سے ٹکرا دینا۔

Asteroiden Kollision
’ڈِیڈی مَوس‘ کا جڑواں سیارچہ ‘ڈِیڈی مُون‘تصویر: ESA–Science Office

ایسا پہلا عملی تجربہ سن 2020ء میں کیا جائے گا۔ یورپی خلائی ایجنسی ای ایس اے اور امریکی خلائی ادارہ ناسا مل کر جڑواں سیارچوں ’ڈِیڈی مَوس‘ اور ‘ڈِیڈی مُون‘ کو نشانہ بنائیں گے۔ ایک مصنوعی سیارہ نگرانی کرتے ہوئے ایک لینڈر کے ذریعے نمونے حاصل کرے گا، تو 330 کلوگرام وزنی ایک اور سیٹلائٹ سیدھا ’ڈِیڈی مُون‘ سے جا ٹکرائے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے، ’’آپ اسے ’خلا میں سنوکر‘ کا نام بھی دے سکتے ہیں۔‘‘

دس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تصادم

ایسے کسی تصادم کے بعد کسی ایسٹیروئڈ کے سفر کی سمت کس حد تک بدلی جا سکے گی؟ اس کے لیے جرمنی کے شہر فرائی بُرگ کے ایرنسٹ ماخ انسٹیٹیوٹ میں ماہرین جو تجربے کر رہے ہیں، ان میں ایک سیٹلائٹ کی طرح کے جسم کو ایک سیارچے جیسے مادے کے ساتھ دس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار سے ٹکرایا جاتا ہے۔ یہ تقریباﹰ اتنی ہی رفتار ہے، جتنی سچ مچ خلا میں دیکھی جاتی ہے۔

Infografik A Near-Earth Asteroid Census ENG
زمین کے قریب خلا میں موجود سیارچے اور ان کی جسامت کا تناسب

ایک زمینی تجربہ گاہ میں اس خلائی نوعیت کے تجربے کا نتیجہ یہ کہ ایسے کسی سیٹلائٹ کے کسی ایسٹیروئڈ سے ٹکرانے پر اس سیارچے کی سطح پر دو گنا طاقت والا ردعمل پیدا ہوتا ہے۔ فرائی بُرگ کے ایرنسٹ ماخ انسٹیٹیوٹ کے محقق فرانک شیفر کہتے ہیں، ’’اس تجربے سے ہم نے اسی طرح کی صورت حال کا جائزہ لیا کہ ایک پروجیکٹائل کی صورت میں سیٹلائٹ اس سیارچے سے کیسے ٹکرائے گا اور یہ سیارچہ اسے کتنی قوت سے واپس بھیجے گا۔ یہ وہی اصول ہے، جیسے کسی جیٹ کا انجن کام کرتا ہے، بہت تیز رفتاری سے انجن سے فاضل مادوں کے اخراج کے باعث بھی جیٹ کی رفتار مسلسل زیادہ ہوتی جاتی ہے۔‘‘

آخری حل جوہری میزائل

لیکن یوں صرف چھوٹے اور بہت ٹھوس ایسٹیروئڈز کا رخ ہی بدلا جا سکتا ہے۔ کسی بہت بڑے سیارچے کی سطح اگر نرم ہو اور اس میں اسفنج کی طرح کے سوراخ بھی ہوں، تو ردعمل کی قوت بہت کم  ہو جاتی ہے اور سیارچے کے سفر کا رخ بدلنا بھی بہت مشکل ہو جاتا ہے۔

یورپی یونین کے خلائی منصوبے نِیؤشیلڈ کے سربراہ ایلن ہیرس کہتے ہیں، ’’اگر کوئی بہت بڑا سیارچہ زمین کی طرف آ رہا ہو اور ہمیں اس کا پتہ بھی بڑی تاخیر سے چلے، تو پھر اس کے خلاف ہمارے پاس صرف ایک ہی آخری حل ہو گا، یعنی کوئی جوہری میزائل۔ لیکن اس طرح کسی جوہری میزائل سے نشانہ بنائے جانے کے ساتھ کوئی بہت بڑا سیارچہ جب دھماکے سے پھٹے گا، تو اس کے مختلف جسامت کے بہت سے ٹکڑے ہو جائیں گے۔ بعد میں یہی خلائی ٹکڑے کوڑے کی صورت میں بھی زمین کا رخ کر سکتے ہیں اور ایسے کسی عمل کے نتائج بھی بہت ہی خطرناک ہو گیں۔‘‘

بس نِیؤشیلڈ کے ماہرین کوئی غلطی نہ کریں

تو پھر کسی سیارچے کے زمین کے ساتھ ممکنہ تصادم سے پوری طرح کیسے بچا جا سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم صرف امید ہی کر سکتے ہیں کہ NeoShield منصوبے کے خلائی ماہرین زمین کی طرف بڑھنے والے تمام سیارچوں پر نظر رکھنے میں کبھی کوئی غلطی نہیں کریں گے۔ اس لیے کہ ایسے جس بھی سیارچے کو انہوں نے دیکھ لیا، اسے تو وہ روک ہی لیں گے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں