1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زمان پارک نو گو ایریا بنتا جا رہا ہے، آئی جی پنجاب

16 مارچ 2023

پنجاب پولیس کے سربراہ ڈاکٹرعثمان انور نے کہا ہے کہ عمران خان کی لاہور والی رہائش گاہ کا علاقہ زمان پارک نو گو ایریا بنتا جا رہا ہے جہاں پولیس بھی نہیں جا سکتی۔

https://p.dw.com/p/4OmdQ
Pakistan Zusammenstöße vor der Residenz von Imran Khan
تصویر: K.M. Chaudary/AP Photo/picture alliance/dpa

لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان کا کہنا تھا کہ عدالت سے زمان پارک میں سرچ آپریشن کی اجازت دینے کی استدعا کی جائے گی۔

موجودہ سیاسی بحران کے محرکات، کردار اور اثرات

عمران خان کی گرفتاری کا آپریشن مزید ایک روز کے لیے ملتوی

یاد رہے اسلام آباد کی طرف سے عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد  پولیس عمران خان کو گرفتار کرنا چاہتی ہے لیکن لاہور ہائی کورٹ نے ان کی گرفتاری کے حوالے سے جاری آپریشن کو جمعے کی صبح تک روکنے کی ہدایت کر رکھی ہے۔

اگرچہ زمان پارک آپریشن تو اب جاری نہیں ہے لیکن پولیس نے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف چار نئے مقدمات درج کر لیے ہیں۔ پہلے مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات کے ساتھ کل انیس دفعات لگائی گئی ہیں اور اس میں عمران احمد خان نیازی کو دیگر پی ٹی آئی کارکنوں اور لیڈروں کے ہمراہ براہ راست نامزد کیا گیا ہے۔ لاہور کے تھانہ ریس کورس میں درج ہونے والے اس مقدمے میں عمران اور ان کے ساتھیوں پر دہشت گردانہ جرم کرنے کے علاوہ کار سرکار میں مداخلت کرنے، سرکاری املاک کو تقصان پہنچانے ، اقدام قتل اور مجرمانہ سازش جیسے الزامات بھی عائد کئے گئے ہیں۔

دوسری ایف آئی آر ایلیٹ فورس کے اہلکار محمد شریف کی طرف سے درج کروائی گئی ہے جس میں پی ٹی آئی کارکنوں پر سرکاری اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنانے، سرکاری گاڑیوں کو نقصان پہنچانے اورپولیس اہلکاروں سے بلٹ پروف جیکٹ چھیننے جیسے الزامات عائد کئے ہیں۔

تیسری ایف آئی آر میں واسا کے ایک اہلکار زعیم الظفر نے پی ٹی آئی کے مشتعل مظاہرین پر واسا ڈسپوزل اسٹیشن میں توڑ پھوڑ کرکے تین کروڑ روپے کی مشینری کو نقصان پہنچانے کا الزام  عائد کیا ہے۔ 

پی ٹی آئی کے کارکنوں اور لیڈروں کے خلاف درج کیے جانے والے چوتھے مقدمے میں ایک ٹریفک اہلکار نے پی ٹی آئی ورکرز پر ٹریفک کے مال سیکٹر کی بلڈنگ میں توڑ پھوڑ کرنے، موٹر سائیکلوں کو نقصان پہنچانے اور سرکاری سامان کو آگ لگانے کے الزامات عائد کیے ہیں۔

لاہور میں ایک نجی ٹی وی سے وابستہ صحافی جہانگیر خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس طرح کے مقدمات کو ان کی سیاسی نوعیت کی وجہ سے زیادہ سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔ ان کے بقول کسی مقدمے میں بہت زیادہ دفعات کا لگانا دراصل پریشر بڑھانے کا ایک طریقہ ہوتا ہے تاہم ان کے بقول زیادہ دفعات والے مقدمات میں شواہد اکٹھے کرکے ان دفعات والے جرائم کو عدالت میں ثابت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ تاہم ایک سوال کے جواب میں سینئر کرائم رپورٹر جہانگیر خان کی رائے تھی کہ ایسے مقدمات کارکنوں کو الجھانے اور پریشان کرنے کا باعث ضرور بنتے ہیں۔ ''اب تک پولیس نے زمان پارک آپریشن کے خلاف جن ساٹھ لوگوں کو گرفتار کیا ہے ان میں آزاد کشمیر، کے پی، شیخوپورہ سمیت لاہور سے باہر کے علاقوں سے تعلق رکھتے ہے۔ یہ لوگ اگر سزا نہ بھی پا سکے تو اشتہاری ہونے کی صورت میں ان کا نام کرمنل ریکارڈ میں آ جائے گا جس سے ان کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔‘‘

 یاد رہے پنجاب کے وزیراطلاعات جمعرات کے روز یہ بتا چکے ہیں کہ زمان پارک کے پاس سے گرفتار ہونے والے لوگوں میں صوفی محمد کا ایک قریبی ساتھی اور تحریک نفاذ شریعت کا ایک ایسا کارکن بھی شامل ہے جو آٹھ سال قید کاٹ کر آیا ہے۔

سینیئرر تجزیہ کار امتیاز عالم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اصولی طور پرسیاسی کارکنوں اور جماعتوں کو آزادی اظہار  اور جلسے جلوس کرنے کی اجازت ہونی چاہیے لیکن پچھلے چند دنوں سے لاہور میں جو صورتحال دیکھی جا رہی ہے وہ بقول ان کے بہت خوفناک ہے۔ ان کے مطابق عمران خان اپنے کارکنوں کو سوشل میڈیا سے اگلے مرحلے میں اب گلیوں میں لے آئے ہیں اور انہوں نے جس طرح عدالتی احکامات کی تعمیل کروانے والے پولیس کو روکا ہے اس سے صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

گرفتاری آپریشن معطل، زمان پارک میں وقتی خوشیاں

امتیاز عالم کا خیال ہے کہ اس صورتحال کا حل صرف سیاسی لوگ نکال سکتے ہیں اس کے لیے یا پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ میں واپس لایا جانا چاہیے اور ایوان کی ایک مشترکہ کمیٹی اس مسئلے کا کوئی حل نکالے  یا پھر آل پارٹیز کانفرنس بلا کر اگلے الیکشن کے حوالے سے رولز طے کر لیے جائیں اگر ایسا نہ ہو سکا تو پھرآنے والے دنوں میں  ہر الیکشن متنازعہ الیکشن ہوگا۔