1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ریکوڈیک معاہدہ، کیا حکومتی اتحاد تضادات کا شکار ہو چکا ہے؟

14 دسمبر 2022

پاکستان میں سونے اور تانبے کے وسیع ذخائز کے حامل ریکوڈک منصوبے کے متعلق قانون سازی پر نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4KvSh
Pakistan Belutschistan | Reko Diq vom Berg Chaghi
تصویر: Quetta Abdul Ghani Kakar/DW

بلوچستان کے پشتون اور بلوچ قوم پرست جماعتیں کہتی ہیں ریکوڈک منصوبے کی آڑمیں اٹھارویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ریکوڈک سے متعلق قانون سازی پرحکومت کی اہم اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اور جمعیت علمائے اسلام بھی سخت نالاں ہیں۔ ادھر دوسری جانب وزیراعظم میاں شہباز شریف نے ریکوڈک تنازعے پر اتحادیوں کے تحفظات دور کرنے کے لیےمختلف رہنماؤں سے رابطے کیے ہیں۔ بلوچستان نیشل پارٹی مینگل نے ریکوڈک سے متعلق اہم امور کا جائزہ لینے کے لیے 15 دسمبر کو کورکمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا ہے۔

مبصرین کہتے ہیں تحفظات دور نہ ہوئے تو حکمران اتحاد میں شامل بعض جماعتیں حکومت سے علیہدگی اختیار کرسکتی ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء اور سابق سینٹر، نوابزادہ حاجی لشکری خان رئیسانی کہتے ہیں ریاستی ایماء پر حکومت نے بلوچستان کے وسائل لوٹنے کا نیا پلان مرتب کیا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، '' ہم روز اول سے یہ کہتے آرہے ہیں کہ بلوچستان کے وسائل پر کسی کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ ریکوڈک ہمارے بقاء کا منصوبہ ہے اسے یہاں کی حقیقی قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ ریاست کہتی ہے کہ یہ منصوبہ صوبے کا مستقبل روشن کردے گا۔ جن لوگوں کو تباہ حال بلوچستان کے حال سے کوئی سروکار نہیں ہمارے مستقبل کا کس طرح خیال رکھ سکتے ہیں ۔ ریکوڈک کی قانون سازی دراصل اٹھارویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی کوشش ہے۔ حکمران جان بوجھ کر بلوچستان کو ایک دلدل کی جانب دھکیل رہے ہیں۔‘‘

 

لشکری رئیسانی کا کہنا تھا کہ ریکوڈک سے متعلق قانون سازی صرف ریکوڈک نہیں بلکہ صوبے کے تمام وسائل ہڑپ کرنے کا ایک منصوبہ ہے ۔

انہوں نے مذید کہا، ''جمہوری روایات کی دعویدار موجودہ حکومت نے ریکوڈک سے متعلق قانون سازی کرکے سیاسی اورجمہوری روایات کو یکسر روندھ ڈالا ہے۔ مرکز نے صوبائی اختیارات میں مداخلت کے لیے عجلت میں ریکوڈک بل پاس کیا ہے۔ بلوچستان کے سینیٹرز کو سخت احتجاج کے باوجود ایوان بالا میں اس متنازعہ بل سے متعلق اظہار خیال کا کوئی موقع نہیں دیا گیا۔ اس حوالے سے قبل ازین ان کیمرہ بریفنگ میں بھی تمام حقائق مسخ کیے گئے تھے۔‘‘

ریکوڈک سے متعلق قانون سازی کو بلوچ قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی نے بھی مسترد کیا ہے۔سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کہتے ہیں بلوچستان کے وسائل پرصوبے کے حق حاکمیت کوتسلیم کیے بغیر یہ معاملات کبھی بہتر نہیں ہوسکتے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''موجودہ صوبائی حکومت نے اپنے اختیارات سے چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے ۔ مرکز کی ایماء پر پالیسیاں بنائی جارہی ہیں۔ صوبے کے مفادات کو یکسر نظرانداز کیا گیا ہے۔ یہاں کے ساحل اور وسائل کو مال غنیمت کی طرح لوٹا جا رہا ہے۔ سی پیک جیسے بڑے منصوبے کے تحت ملک بھر میں ترقیاتی کام کیے گئے لیکن بلوچستان کو اصل حقدار کے طور پر نظر انداز کیا گیا۔ جس وقت میں صوبے میں بطور وزیر اعلیٰ فرائض سرانجام دے رہا تھا اس وقت بھی اس ضمن میں اہم ترین امور سے دور رکھا گیا۔ ریکوڈک سے متعلق ان کیمرہ بریفنگ میں بھی میں نے شرکت نہیں کی تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ اس بریفنگ میں دعوؤں کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوگا۔‘‘

Pakistan Belutschistan | Reko Diq vom Berg Chaghi
ریکوڈک سے متعلق قانون سازی پرحکومت کی اہم اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اور جمعیت علمائے اسلام بھی سخت نالاں ہیں۔ تصویر: Quetta Abdul Ghani Kakar/DW

ڈاکٹر مالک بلوچ کے مطابق سیندک اور ریکوڈک جیسے اہم ترین منصوبوں میں بلوچستان کے مفادات منظم پلان کے تحت نظر انداز کیے جا رہے ہیں۔

ان کے بقول، ''سابقہ دور میں جب ہماری جماعت صوبائی مخلوط حکومت کا حصہ تھی تو بطور وزیر اعلیٰ میرے سامنے سیندک معاہدے کی توسیع کی فائل بھی پیش کی گئی۔ میں نے اس فائل پر دستخط سے انکار کردیا تھا۔ اٹھارویں ترمیم ملکی مفاد کی ضامن ہے اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ریکوڈک کا یہ نیا معاہدہ اورقانون سازی دراصل بلوچستان کے مستقبل کا سودا ہے جسے یہاں کے وطن دوست اور جموری روایات کی امین جماعتیں کسی صورت قبول نہیں کریں گی۔‘‘

غیر ملکی سرمایہ کاری کے تحفظ اور فروغ بل کو حکمران اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ جمعیت علمائے اسلام کے صوبائی رہنماء عبدالعلی خان کہتے ہیں کہ عجلت میں ہونے والے فیصلے اکثر اوقات تضادات کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''میرے خیال میں ریکوڈک سے متعلق قانون سازی کئی حوالوں سے متنازعہ ہے۔ سیاسی قیادت کو جس طرح اس ضمن میں اعتماد میں لینے کی ضرورت تھی اس طرح نہیں لیا گیا۔ موجودہ حکومت کی اتحادی جماعتوں نے جو اعتراضات اٹھائے تھے وہ نظر انداز کیے گئے۔ اٹھارویں ترمیم ملک میں قومی اکائیوں کی محرومیاں دور کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ حکومت زمینی حقائق پر مبنی اقدمات کرتی لیکن سابقہ حکومتوں کی طرح اس بار پھر وہی رویہ اپنایا گیا۔‘‘

 

علی خان کا کہنا تھا کہ ریکوڈک اربوں ڈالرز کا منصوبہ ہے۔ حکومت کو وقت ضائع کیے بغیر سیاسی قیادت کو اس حوالے سے اعتماد میں لینا ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا، ''جے یو آئی ایف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، محمود خان اچکزئی اور سردار اختر مینگل کے درمیان ریکوڈک سے متعلق امور پر تفصیلی گفتگو ہوئی ہے۔آج ہم نے سنا ہے کہ وزیر اعظم نے سیاسی قیادت کے تحفظات دور کرنے کا اعلان کیا ہے۔ میں سمجتا ہوں اب صرف اعلانات ان معاملات کو بہتر نہیں بنا سکتے۔ حکومت کو اس اہم ترین معاملے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اگر ریکوڈک سے متعلق تحفظات دور نہ ہوئے تو حالیہ حکومتی اتحاد تضادات کا شکار ہوسکتی ہے۔‘‘

Pakistan Belutschistan | Reko Diq vom Berg Chaghi
بعض ناقدین کہتے ہیں کہ جام کمال حکومت کے بنائے گئے انوسٹمنٹ بورڈ سے اسٹیبلشمنٹ خوش نہیں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جام کمال کی حکومت مبینہ مداخلت کے ذریعے راتوں رات ختم کی گئی۔ ریکوڈک معاہدے پر جام کمال نے بھی شدید تنقید کی تھی۔تصویر: Quetta Abdul Ghani Kakar/DW

بلوچستان کی سابقہ مخلوط حکومت نے ریکوڈک سے متعلق واضح موقف اختیار کرتے ہوئے صوبے کے مفادات کے لیے انوسٹمنٹ بورڈ بھی قائم کیا تھا۔

سابق وزیراعلیٰ جام کمال نے انوسٹمنٹ بورڈ کے حوالے سے موقف اختیار کیا تھا کہ مستقبل میں بلوچستان میں غیرملکی سرمایہ کاری کے ہر معاہدے میں صوبے کی حیثیت بڑے شراکت دار کی ہوگی۔ ذرائع کے مطابق ریکوڈک کے حالیہ معاہدے میں مذکورہ بورڈ آف انوسٹمنٹ ایںڈ ٹریڈ کے متعلقہ شقوں کو بھی نظرانداز کیا گیا ہے۔

بعض ناقدین کہتے ہیں کہ جام کمال حکومت کے بنائے گئے انوسٹمنٹ بورڈ سے اسٹیبلشمنٹ خوش نہیں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جام کمال کی حکومت مبینہ مداخلت کے ذریعے راتوں رات ختم کی گئی۔ ریکوڈک معاہدے پر جام کمال نے بھی شدید تنقید کی تھی۔

ساتھ ہی پاکستان پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت میں مائننگ رولز 2002، کی شرائط پوری نہ ہونے کے باعث نومبر 2011 میں ٹی سی سی نامی کمپنی کا لائنسنس بھی منسوخ کیا گیا تھا۔ ٹی سی سی نے پاکستان کے خلاف ثالثی کے دو بین الاقوامی فورمز سے رجوع کیا تھا۔

انٹرنیشنل سینٹر فارسیٹلمنٹ اف انویسٹمنٹ ڈیسپیوٹ (ایکسڈ) نے ٹی سی سی ، ٹھیتیاں کاپر گولڈ کمپنی کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے پاکستان کی مجوعی طور پر 6 ارب ڈالرز کا جرمانہ عائد کیا تھا۔