1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روہنگیا باغیوں کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان

10 ستمبر 2017

میانمار کی ریاست راکھین میں سرگرم باغیوں نے یکطرفہ طور پر جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے۔ اراکان روہنگیا سالویشین آرمی کے مطابق جنگ بندی اس وجہ سے کی جا رہی ہے تاکہ متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں کا آغاز ہو سکے۔

https://p.dw.com/p/2jex8
Myanmar Rohingya Rauchwolke
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S.Kanti Das

روہنگیا باغیوں نے میانمار کی ریاست راکھین میں یک طرفہ طور پر کئی ماہ کے لیے جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے۔ اس ریاست میں حکومتی فوجی آپریشن کی وجہ سے سینکڑوں افراد ہلاک جبکہ تین لاکھ کے قریب بنگلہ دیش فرار ہو گئے ہیں۔ راکھیں میں مسلح کارروائیاں کرنے والا عسکری گروہ خود کو اراکان روہنگیا سالویشین آرمی کے نام سے پکارتا ہے اور اس نے یہ پیغام ٹوئٹر پر جاری کیا ہے۔

میانمار: مزید کئی روہنگیا دیہات نذر آتش، پاکستان کا احتجاج

ماضی میں بھی یہ گروپ ٹوئٹر کے ذریعے ہی اپنے پیغامات عام عوام تک پہنچاتا رہا ہے۔ پیغام میں میانمار کی سرکاری فورسز سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ بدلے میں بلا امتیاز تمام متاثرین کی مدد کریں۔ میانمار حکومت کی طرف سے ابھی اس حوالے سے کوئی بھی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ گزشتہ برس اکتوبر اور پھر  اگست میں اسی گروہ نے میانمار کے فوجیوں پر حملہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ ان حملوں کے بعد ہی حکومتی فورسز نے تمام روہنگیا مسلمانوں کو اپنی کارروائیوں کا نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا۔

Rohingya-Konflikt in Myanmar
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Armangue/AP

فرار ہونے والے روہنگیا مہاجرین کے مطابق حکومتی فورسز کے تمام کے تمام دیہات ہی جلا دیے ہیں، جس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔ دوسری جانب میانمار حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر ’عسکریت پسند‘ شامل ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق میانمار میں پیدا ہونے والے حالیہ عسکری گروہ کی تشکیل اور کارروائیوں کی وجہ سخت حکومتی پالیسیاں بنی ہیں۔

دوسری جانب مسلم ممالک میں روہنگیا مسلمانوں کے ’قتل عام‘ کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ مسلم ممالک کے متعدد رہنماؤں نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ میانمار کے خلاف سفارتی دباؤ میں اضافہ کریں۔

مصر کی مذہبی درس گاہ  جامعہ الاظہر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی کارروائیاں عسکریت پسندی کو جنم دیتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اگست کے بعد سے بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا مہاجرین کی تعداد تقریباﹰ تین لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور کم جگہ ہونے کی وجہ سے انہیں کیمپوں میں رکھنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

روہنگیا مہاجرین کو بنگلہ دیش میں بھوک اور پیاس کا سامنا