1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روم میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ

عاطف توقیر
2 دسمبر 2017

سعودی عرب اور ایران کے وزرائے خارجہ نے روم میں ایک اجلاس کے دوران ایک دوسرے پر سخت نوعیت کے الزامات عائد کیے۔

https://p.dw.com/p/2oezH
Karte Libanon Saudi-Arabien Iran ENG

اطالوی دارالحکومت روم میں سعودی عرب کے وزیرخارجہ عادل الجبیر نے کہا، ’’انہوں نے ہمارے خطے اور دنیا بھر میں موت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔‘‘

حوثی صالح سے اور صالح سعودی عرب سے بات چیت کے لیے تیار

اسرائیل اور سعودی عرب: مشرق وسطٰی میں نئے بہترین دوست؟

یورپ خطرہ بنا تو بیلسٹک میزائلوں کی رینج بڑھا دیں گے، ایران

جمعے کے دن ’’ایک مثبت ایجنڈا‘‘ کے نام سے تین روزہ کانفرنس میں شریک سعودی وزیرخارجہ الجبیر نے ’’بحران سے آگے‘‘ نامی سیشن میں ایران اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ کے درمیان تند و تیز جملوں کا تبادلہ ہوا۔ الجبیر کا کہنا تھا کہ ایران خطے کو انتہائی منفی طریقے سے متاثر کر رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا، ’’سن 1979 سے اب تک ایران دنیا بھر میں دہشت گردی کا سب سے بڑا مددگار ہے۔‘‘

ایران اور سعودی عرب شام، عراق، یمن، لبنان اور متعدد گیر ممالک میں پراکسی جنگ لڑ رہے ہیں۔ الجبیر نے کہا کہ ایران سیاہ دھن اور منشیات کی آمدن سے لبنان میں حزب اللہ سمیت متعدد دہشت گرد تنظیموں کو پناہ اور معاونت دیتا ہے۔

ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف کا اس سے قبل کہنا تھا، ’’ایران اس اجلاس کو سعودی عرب پر تنقید کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہتا، مگر سعودی عرب نے شام اور لبنان میں فائربندی کی ہرکوشش کو مسترد کیا ہے۔‘‘

جواد ظریف کا کہنا تھا، ’’اسلامک اسٹیٹ کی مدد یہ سوچ کر کون کرتا رہا کہ وہ شامی حکومت کو تین ہفتوں میں ختم کر دے گی۔ قطر کی ناکہ بندی کے پیچھے کون ہے؟ لبنان کے وزیراعظم کو عہدہ چھوڑنے پر مجبور کس نے کیا؟‘‘

جواد ظریف کا کہنا تھا، ’’ہمیں یقین ہے کہ تمام ممالک کو مل کر رہنا اور کام کرنا ہے مگر کچھ افراد چاہتے ہیں کہ ہمیں الگ کر دیا جائے۔‘‘

قطر کا بحران: کون کس کے ساتھ ہے؟

الجبیر نے اس کے جواب میں کہا کہ سعودی عرب کو نہیں ایران کو خطے میں اپنے دوست اور اتحادی ڈھونڈنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور اس کی وجوہات کا جائزہ ایران خود لے۔‘‘ الجبیر کا کہنا تھا، ’’ہماری دنیا کے تقریباﹰ تمام ممالک سے اچھے تعلقات ہیں، سوائے ایران اور شمالی کوریا کے۔ ایران کا دوست کون ہے سوائے بشارالاسد اور شمالی کوریا کے؟‘‘

اس موقع پر دونوں وزرائے خارجہ کے درمیان ان شدید تندوتیز جملوں کا سلسلہ جاری تھا، جب روسی وزیرخارجہ سیرگئی لاوروف نے مداخلت کی اور کہا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف سخت جملوں کے استعمال کی بجائے مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کی کوشش کریں۔