1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روسی میزائل رکھنے نہیں استعمال کرنے کے لیے خریدے ہیں، ترکی

16 نومبر 2019

ترک حکومت نے واضح کر دیا ہے کہ اس نے روسی ایس چار سو میزائل ذخیرہ کرنے کے لیے نہیں بلکہ استعمال کرنے کے لیے خریدے ہیں۔ ترک صدر ایردوآن کے ایک ترجمان کے مطابق اب ’واپس پچھلی طرف قدم اٹھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘۔

https://p.dw.com/p/3T9nQ
تصویر: picture-alliance/dpa/Russian Defence Ministry

ترک دارالحکومت انقرہ سے ہفتہ 16 نومبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق امریکا اور ترکی دونوں ہی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے رکن اور ایک دوسرے کے اتحادی ممالک ہیں لیکن ترکی کی طرف سے جدید ترین روسی ساختہ S-400 میزائلوں کی خریداری پر امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ کے شدید ترین اعتراضات انقرہ اور واشنگٹن کے مابین غیر معمولی کھچاؤ کا باعث بن چکے ہیں۔

ترک صدر رجب طیب ایردوآن اور ان کے امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین اسی ہفتے بدھ کے روز اس بارے میں پھر ایک بار بات چیت بھی ہوئی تھی کہ دونوں ممالک کے مابین مسلسل شدید ہوتے جا رہے اختلافات کو کم کیسے کیا جائے۔

یہ اختلافات خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے متعلق ترک حکومتی پالیسی سے لے کر  انقرہ کی طرف سے روسی ایس چار سو میزائلوں کی خریداری اور ترکی کے خلاف امریکا کی ممکنہ پابندیوں کی دھمکیوں تک کئی شعبوں کا احاطہ کرتے ہیں۔

Waffensystem: Flugabwehrrakete S-400 Triumf / möglicherweise eine RM-75
اس جدید ترین روسی ایئر ڈیفنس سسٹم کے ذریعے زمیں سے دشمن جنگی طیاروں کو فضا میں ہی نشانہ بنایا جا سلتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/D. Rogulin

میزائل صرف رکھنے کے لیے خریدنا 'غیر منطقی‘

اس بارے میں ترکی کی دفاعی صنعت کے ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ اسماعیل دیمیر نے آج ہفتے کے روز نشریاتی ادارے سی این این ترک کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ انقرہ نے روس سے جو ایس چار سو میزائل خریدے ہیں، وہ صرف رکھے رہنے کے لیے نہیں خریدے گئے بلکہ انہیں استعمال بھی کیا جائے گا۔

اسماعیل دیمیر کے مطابق کسی بھی ملک کے لیے یہ بڑی غیر منطقی بات ہو گی کہ وہ ایسے جدید ترین دفاعی میزائل سسٹم خرید تو لے لیکن پھر انہیں اپنے پاس صرف رکھے ہی رہے۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ انقرہ اور واشنگٹن دونوں کو ہی اس بارے میں اپنے اختلافات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، اسماعیل دیمیر نے کہا، ''یہ کوئی درست سوچ نہیں ہو گی کہ ہم کہیں کہ ہم نے یہ میزائل صرف اپنے پاس رکھنے کے لیے خریدے ہیں۔ ہم نے یہ دفاعی خریداری اپنی ضرورت کے تحت کی ہے اور اس کے لیے بہت بڑی رقوم بھی ادا کی ہیں۔‘‘

امریکا اور روس 'دونوں ہی ترکی کے اتحادی‘

ساتھ ہی اس اعلیٰ ترک اہلکار نے مزید کہا، ''روس اور امریکا، ہمارے دونوں کے ساتھ ہی اتحادیوں والے تعلقات ہیں اور ہمیں اپنے ان معاہدوں کا احترام کرنا ہے، جو ہم نے کر رکھے ہیں۔‘‘

ترکی کے اس موقف کا پس منظر یہ بھی ہے کہ انہی روسی میزائلوں کی خریداری کی وجہ سے ٹرمپ انتظامیہ انقرہ کے لیے اپنے ایف پینتیس جنگی طیاروں سے متعلق پروگرام کو معطل بھی کر چکی ہے اور واشنگٹن انقرہ کو یہ دھمکی بھی دے چکا ہے کہ وہ اسی ترک روسی دفاعی معاہدے کی وجہ سے انقرہ کے خلاف پابندیاں بھی عائد کر سکتا ہے۔

امریکا کی طرف سے پابندیوں کی ان دھمکیوں کے باوجود ترکی کا کھلا جواب یہ ہے کہ وہ روس کے ساتھ ان میزائلوں کی خریداری کے معاہدے پر بالکل کاربند رہے گا، جن کی ماسکو کی طرف سے ترسیل اسی سال جولائی میں شروع بھی ہو گئی تھی۔

ترک ڈیفنس انڈسٹری ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ اسماعیل دیمیر کے الفاظ میں، ''ایسا تو ہو نہیں سکتا ہم کسی دوسرے (ملک) کی وجہ سے ان میزائلوں کو استعمال نہ کریں۔‘‘ انہوں نے کہا، ''ہم اپنا فرض پورا کرتے ہوئے ان میزائلوں کو استعمال بھی کریں گے، لیکن کب اور کن حالات میں، یہ فیصلہ بعد میں وقت آنے پر کیا جائے گا۔‘‘

قبل ازیں ترک صدر ایردوآن کے ترجمان ابراہیم کالین نے بھی کل جمعے کے روز کہہ دیا تھا، ''یہ تو ہو نہیں سکتا کہ اب ہم پیچھے کی طرف کوئی قدم اٹھائیں۔ ترکی ایس چار سو میزائل خرید چکا ہے اور انہیں فعال بھی رکھے گا۔‘‘

م م / ع ح (روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں