1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روسی اور ترک اختلافات نے ادلب پر حملہ مؤخر کر دیا

15 ستمبر 2018

شامی تنازعے میں روس اور ترکی بظاہر اختلاف رکھتے ہیں حالانکہ عالمی سطح پر وہ کئی امور میں متفق ہیں۔ ترک حکومت روس کے ساتھ گہرے تعلقات رکھتی ہے۔

https://p.dw.com/p/34u2t
Bildkombo: Hassan Rouhani, Vladimir Putin und Recep Tayyip Erdogan

شامی صوبہ ادلب میں جمع باغیوں کے خلاف فیصلہ کُن عسکری کارروائی سے قبل روس اور ترکی کے مابین اختلافات پائے جاتے ہیں اور اسی باعث شامی فوج کے عسکری آپریشن کو بظاہر مؤخر کر دیا گیا ہے۔ ایک ترک سفارتکار نے نام مخفی رکھتے ہوئے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ حملہ یقینی ہو گا لیکن سردست کسی فوری حملے کا امکان موجود نہیں ہے۔

 

یہ امر اہم ہے کہ ادلب کے علاوہ بقیہ شام پر صدر بشار الاسد کی فوج نے اپنی حکومت کا اختیار قائم کر دیا ہے۔ سارے شام سے پسپا ہونے والے مختلف گروپوں کے باغی اس وقت ادلب میں جمع ہیں۔ ادلب پر شامی فوج کے ممکنہ حملے کو روس کی عملی حمایت و تائید حاصل ہے۔

ترک حکومت ادلب پر حملے کی صورت میں پیدا ہونے والے انسانی المیے پر تشویش رکھتی ہے اور وہ خونریزی کو روکنے کی کوشش میں ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ اسد حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں کو ترک حکومت کی حمایت بھی حاصل رہی ہے اور اب وہ باغیوں کے حوالے سے کسی کمپرومائز کی تلاش میں ہے۔ تہران سمٹ کی ناکامی کے بعد روسی و ترک حکومتی اہلکاروں کے درمیان ادلب کے معاملے پر مشاورتی عمل مسلسل جاری رہا ہے۔

Kämpfer der Freien Syrischen Armee mit AK-47 Patronen
ادلب میں شامی باغیوں کے کارکن خود کار بندوقوں کے لیے گولیاں جمع کرتے ہوئےتصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas

اسی صورت حال پر مزید بات چیت کے لیے ترک صدر رجب طیب ایردوآن پیر اٹھارہ ستمبر کو اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کے ساتھ روسی شہر سوچی میں ملاقات کریں گے۔ اس ملاقات کی تصدیق ترک وزیر خارجہ مولود چاؤش اولو نے کی ہے۔ دونوں صدور کے درمیان ہونے والی اس میٹنگ میں شام کے علاقے اِدلب میں ملکی فوج کے باغیوں کے خلاف ممکنہ عسکری آپریشن اور حملے کے بعد کی صورت حال پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔

اس سے قبل تہران میں یہ دونوں صدور ایرانی صدر حسن روحانی کے ساتھ اسی معاملے پر میٹنگ کر چکے ہیں۔ سات ستمبر کو تہران میں منعقد ہونے والا یہ سہ فریقی اجلاس بےنتیجہ رہا تھا۔ سوچی میں ایردوآن اور پوٹن میٹنگ میں ادلب میں حیات تحریر الشام کے ہزاروں باغیوں کا معاملہ اہم ہے۔ اسی گروپ کی انقرہ حکومت حامی ہے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے فریقین سے اپیل کی ہے کہ ادلب میں حملے سے پیدا ہونے والی ہولناکی سے اجتناب ضروری ہے اور معاملات کو بات چیت سے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ادلب پر حملے کی صورت میں ممکنہ طورپر ہزاروں ہلاکتوں کے علاوہ لاکھوں افراد مہاجرت پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس وقت بھی ادلب کے عام شہری ترکی اور شامی صوبے حما میں منتقل ہونے کی کوشش میں ہیں۔

ادلب کے شہری بدترین حالات کے لیے تیاریوں میں مصروف