1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روس میں افغانستان کے موضوع پر بین الاقوامی مذاکرات

3 نومبر 2018

روس نو نومبر کو افغانستان کے موضوع پر بین الاقوامی مذاکرات کی میزبانی کر رہا ہے۔ ان مذاکرات میں کابل حکومت کے علاوہ طالبان کے نمائندے بھی شریک ہوں گے۔

https://p.dw.com/p/37cPZ
Afghanistan Sicherheitskräfte Taliban Afghanistan Konferenz
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Gul

روسی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق یہ بین الاقوامی مذاکرات ماسکو میں ہوں گے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی اور طالبان نے ان مذاکرات میں اپنے وفود بھیجنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ روسی بیان میں کہا گیا ہے، ’’یہ پہلا موقع ہو گا کہ دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر سے وابستہ افراد اس سطح کی کسی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کریں گے۔‘‘

گوانتانامو کے پانچ سابقہ قیدی اب قطر میں طالبان کے رابطہ کار

جرمنی کی بھی افغان طالبان سے ابتدائی گفتگو، خصوصی جرمن مندوب

افغان وزارت خارجہ نے تاہم اس روسی حکومتی بیان کی تصدیق نہیں کی۔ افغان وزارت خارجہ کی جانب سے تاہم کہا گیا ہے، ’’ہم روسی حکام کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہیں، تاہم ابھی تک ہم کسی اتفاق رائے پر نہیں پہنچے۔‘‘

ماسکو کا کہنا ہے کہ اس بین الاقوامی کانفرنس میں امریکا، بھارت، ایران، چین، پاکستان اور وسطی ایشیا کے پانچ ممالک کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔

روسی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے، ’’روس ایک مرتبہ پھر اپنا موقف واضح کرتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ افغانستان میں امن کا واحد راستہ سیاسی مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔‘‘

دوسری جانب سن 2014 میں منصب صدارت سنبھالنے والے اشرف غنی نے اگلے برس ہونے والے صدارتی انتخابات میں دوبارہ حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ اشرف غنی نے صدارتی منصب ایک ایسے موقع پر سنبھالا تھا، جب اسی برس امریکا اور دیگر نیٹو فورسز کی بڑی تعداد کا انخلا عمل میں آیا تھا۔ تاہم بعد میں امریکا نے مخدوش حالات کے سبب چند ہزار فوجیوں کو افغانستان ہی میں تعینات رکھنے کا اعلان کیا تھا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق گو کہ اشرف غنی آئندہ انتخابات میں افغان حکام کے سامنے خود کو ایک ایسے رہنما کے طور پر پیش کریں گے، جو افغانستان میں قیام امن کے لیے واحد موزوں شخصیت ہو، تاہم حالیہ کچھ عرصے میں افغانستان کا ایک بڑا حصہ حکومتی کنٹرول سے باہر جا چکا ہے اور افغان فورسز کو طالبان کے مقابلے میں کئی مقامات پر شکست کا سامنا ہوا ہے۔

ع ت، م م (اے ایف پی، روئٹرز)