1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روبوٹ کے ہاتھوں جرمن فیکٹری ورکر کا ’قتل‘

مقبول ملک2 جولائی 2015

یورپ کی سب سے بڑی کار ساز کمپنی فوکس ویگن کے جرمنی میں پیداواری یونٹوں میں سے ایک میں ایک کارکن ایک روبوٹ کے ہاتھوں مارا گیا۔ پراسیکیوٹرز اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ مقدمہ کس کے خلاف درج کیا جائے۔

https://p.dw.com/p/1FrZE
جرمن شہر وولفسبرگ میں فوکس ویگن کی ایک فیکٹری میں گاڑیوں کی اسمبلنگ کرنے والے روبوٹتصویر: picture-alliance/dpa

جرمن دارالحکومت برلن سے جمعرات دو جولائی کو موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں میں فوکس ویگن کے جاری کردہ ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ یہ جان لیوا واقعہ اسی ہفتے پیر انتیس جون کے روز پیش آیا۔

فوکس ویگن کے ترجمان ہائیکو ہِلوِگ کے مطابق یہ صنعتی کارکن فرینکفرٹ سے قریب 100 کلومیٹر شمال کی طرف باؤناٹال کے مقام پر اس ادارے کے ایک پیداواری یونٹ میں کام کر رہا تھا کہ وہاں موجود بہت سے روبوٹس میں سے ایک کے ہاتھوں مارا گیا۔

ترجمان کے مطابق مارے جانے والے کارکن کی عمر 22 برس تھی اور وہ ایک ایسی ٹیم کا رکن تھا جو ایک ساکت روبوٹ نصب کر رہی تھی۔ ہائیکو ہِلوِگ نے بتایا، ’’روبوٹ کی تنصیب کے دوران اس خودکار مشین نے اس ورکر کو اپنے فولادی بازوؤں میں جکڑا اور اسے ایک بڑی دھاتی پلیٹ پر دے مارا۔‘‘

کمپنی ترجمان کے مطابق اس واقعے کی ابتدائی تحقیقات سے اشارے ملتے ہیں کہ یہ مردم کشی متعلقہ روبوٹ میں پیدا ہونے والی کسی خرابی کی بجائے انسانی غلطی کا نتیجہ تھی۔ انہوں نے کہا کہ فوکس ویگن کے پروڈکشن یونٹس میں ایسے روبوٹس کو کاروں کی اسمبلنگ کے دوران کئی طرح کے کام کرنے کے لیے پروگرام کیا جاتا ہے۔

Porsche Werk in Leipzig
جرمن شہر لائپزگ میں پورشے کمپنی کی سپورٹس کاریں تیار کرنے والا ایک اسمبلنگ یونٹ، جہاں زیادہ تر کام روبوٹ کرتے ہیںتصویر: Reuters

عام طور پر یہ خودکار مشینیں کسی بھی فیکٹری میں محض ایک طے شدہ جگہ یا رقبے کے اندر رہتے ہوئے ہی کام کرتی ہیں۔ اس دوران یہ روبوٹ موٹر گاڑیوں کے مختلف چھوٹے بڑے پرزوں کو اپنی گرفت میں لے کر انہیں جوڑنے کا کام کرتے ہیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس واقعے کے وقت ایک اور کارکن بھی موقع پر موجود تھا، جسے کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ فوکس ویگن کے ترجمان نے اس بارے میں مزید تفصیلات بتانے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ قانونی طور پر ماہرین کی طرف سے چھان بین جاری ہے، اس لیے مزید کچھ کہنا درست نہیں ہو گا۔

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے اسی بارے میں فرینکفرٹ سے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ وفاقی دفتر استغاثہ کی طرف سے اس بارے میں غور کیا جا رہا ہے کہ آیا اس ’قتل‘ کے سلسلے میں باقاعدہ فرد جرم عائد کی جانی چاہیے۔ لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر ہاں تو ملزم کس کو نامزد کیا جائے۔