1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رواں برس افغانستان میں آٹھ ہزار شہری ہلاک یا زخمی

11 اکتوبر 2018

اقوام متحدہ نے جان بوجھ کر عام شہریوں کو قتل کرنے کے عمل کو بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ اس عالمی ادارے نے ایک مرتبہ پھر افغانستان کے مسئلے کا پرامن طریقے سے حل نکالنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/36M2Y
Tote und Verletzte bei Anschlag in Kabul am Neujahrstag des Landes
تصویر: Reuters/M. Ismail

اقوام متحدہ کے افغانستان میں امداد کے لیے مشن (یوناما) نے کہا ہے کہ رواں برس کے پہلے نو ماہ کے دوران افغانستان میں کم از کم دو ہزار سات سو اٹھانوے عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ مختلف پر تشدد کارروائیوں میں زخمی ہونے والے بچوں، خواتین، نوجوانوں اور بزرگوں کی تعداد بھی پانچ ہزار دو سو باون بنتی ہے۔ اقوام متحدہ کے اس ادارے کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق ان میں سے تقریبا چھ سو پچاس افغان شہری فضائی حملوں کے نتیجے میں ہلاک یا زخمی ہوئے۔ یہ تعداد سن دو ہزار نو کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔ یو این اے ایم اے یا یوناما نامی ادارہ سن دو ہزار نو سے ہی ایسی ہلاکتوں کا ریکارڈ جمع کر رہا ہے۔ گزشتہ برس کے مقابلے میں فضائی حملوں کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی یہ تعداد انتالیس فیصد زائد ہے۔ افغانستان میں ایسے زیادہ تر فضائی حملے یا تو افغان فورسز یا پھر امریکی افواج کرتی ہیں۔

تاہم اس ادارے نے یہ بھی بتایا ہے کہ افغانستان میں عام شہریوں کی زیادہ تر ہلاکتیں ان خودکش حملوں کے نتیجے میں ہوئیں، جو عسکریت پسندوں نے کیے۔ ادارے کی رپورٹ کے مطابق افغان طالبان اس ملک کا سب سے بڑا عسکری گروہ ہیں اور وہ رواں برس کے پہلے نو ماہ میں ہونے والی مجموعی ہلاکتوں میں سے پینتیس فیصد کے ذمے دار ہیں۔ اسی طرح ’اسلامک اسٹیٹ‘ (داعش) کو پچیس فیصد ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

Afghanistan Anschlag in Jalalabad
تصویر: Reuters/Parwiz

افغانستان میں اقوام متحدہ کے اس امدادی مشن نے کہا ہے کہ جان بوجھ کر عام شہریوں کو نشانہ بنانا اور انہیں قتل کرنا بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے اور ایسی کارروائیاں جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔

اس رپورٹ میں ایک مرتبہ پھر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی بھی فوجی حل نہیں ہے لہذا یہ مسئلہ امن مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ اس رپورٹ میں خاص طور پر افغانستان کے نسلی اور اقلیتی گروپوں کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔ افغانستان میں بھی شیعہ ہزارہ اقلیت کو بری طرح ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اس وقت صرف ایک غیر ملکی (امریکی) فوج افغانستان میں فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔

افغان اور امریکی فورسز نے طالبان اور داعش کے عسکریت پسندوں کے خلاف اپنے فضائی حملوں میں اضافہ کر رکھا ہے۔

افغان اور امریکی فورسز کی جانب سے اسلحے کے استعمال میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق  بیس اکتوبر کو افغانستان میں پارلیمانی انتخابات کا انعقاد ہوگا اور خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس سے پہلے خودکش حملوں کے ساتھ ساتھ خونریز کارروائیوں میں واضح اضافہ ہو سکتا ہے۔

ا ا / ش ح (روئٹرز، اے ایف پی، اے پی)