1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

راستے بند، کنٹینرز کہاں سے آئے اور نقصان کس کا ہوا؟

2 نومبر 2016

پاکستان میں ہر بڑے احتجاج سے پہلے بڑی تعداد میں کنٹینرز کہاں سے آتے ہیں؟ کئی کنٹینرز سبزیوں، پھلوں اور ادویات سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ آخر حکومت اور اپوزیشن کے اس کھیل میں نقصان کس کا ہوتا ہے اور قیمت کس کو چکانا پڑتی ہے؟

https://p.dw.com/p/2S38b
Auseinandersetzungen zwischen Opposition und Regierunsanhängern in Lahore, Pakistan
تصویر: Farooq Naeem/AFP/Getty Images

اپوزیشن لیڈر عمران خان کی طرف سے اسلام آباد میں احتجاج اور دھرنے کے اعلان کے بعد حکومت نے اسلام آباد کی طرف آنے والے تمام راستے بند کرنا شروع کر دیے تھے۔ اس مرتبہ راستے بلاک کرنے کے لیے تقریباﹰ چار ہزار کنٹینرز استعمال کیے گئے۔ یہ سب وہ کنٹینرز تھے، جن کے ذریعے کراچی سے صوبے خیبر پختونخوا یا ملک کے دیگر حصوں تک اشیاء ٹرانسپورٹ کی جاتی ہیں۔

پاکستانی تاجروں کے مطابق حکومت بلا اجازت ان کے کنٹینرز پکڑ لیتی ہیں اور اس طرح انہیں لاکھوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ عمران خان نے منگل کو احتجاجی دھرنا منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا تھا لیکن سامان سے لدے ہوئے سینکڑوں کنٹینرز ابھی تک ان کے مالکان کو واپس نہیں ملے۔

کراچی میں پاکستان ٹرانسپورٹ فیڈریشن کے وائس چیئرمین چوہدری سعید اقبال کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’حکومت ہمارے ساتھ بہت زیادہ ظلم کر رہی ہے۔ چار ہزار سے زائد کنٹینرز کو قبضے میں لے لیا گیا، جو سامان سے بھرے ہوئے تھے۔‘‘

Proteste gegen Regierung in Pakistan 31.08.2014
تصویر: DW/Shakoor Raheem

پاکستان کے وفاقی ایوان صنعت و تجارت کے نائب صدر  ظفر بختاوری کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ راستے بند کرنے کے لیے کنٹینرز کو پکڑنے کی وجہ سے تاجروں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سینکڑوں فیکٹریوں کو اس وجہ سے بند کرنا پڑا کہ ان کے پاس اسٹوریج کے لیے جگہ نہیں تھی اور سامان لے جانے والے کنٹینرز ابھی تک حکومت نے پکڑ رکھے ہیں۔

ایک مقامی ٹرانسپورٹر بابر چوہدری کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ جب بھی سامان کی ترسیل تاخیر کا شکار ہوتی ہے، تو اس کے لیے جرمانہ ٹرانسپورٹرز کو ادا کرنا پڑتا ہے، ’’ہم کئی مرتبہ حکومت سے شکایت کر چکے ہیں اور اس سلسلے میں کئی اجلاس بھی ہو چکے ہیں۔ لیکن ابھی تک حکومت نے اپنا طریقہء کار نہیں بدلا۔‘‘ دوسری جانب حکومت کا کوئی بھی اہلکار اس حوالے سے کچھ بھی کہنے پر تیار نہیں تھا۔

بڑے شہروں میں بدامنی سے بچنے اور مظاہرین کو روکنے کے لیے سب سے پہلے سن دو ہزار سات میں کراچی کی سڑکوں پر کنٹینرز رکھے گئے تھے اور تب سے یہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اُس وقت پاکستان کے سابق حکمران جنرل پرویز مشرف نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو کارکنوں سے خطاب کرنے سے روکنے کے لیے ایسا کیا تھا۔ اس کے بعد دوسری مرتبہ یہ طریقہ اس وقت اپنایا گیا تھا، جب نواز شریف سعودی عرب میں جلاوطنی کاٹنے کے بعد اسلام آباد ایئر پورٹ پر اترے تھے۔

اس کے بعد سے ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے تواتر سے یہی طریقہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اب سیاسی یا مذہبی جلسوں کے دوران اسٹیج تیار کرنے کے لیے بھی کنٹینرز ہی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں عمران خان اور مذہبی رہنما طاہرالقادری نے بھی اپنے احتجاج کے دوران کنٹینروں کا استعمال کیا تھا۔

اکثر اوقات خالی کنٹینرز کو وزنی بنانے کے لیے ان میں ریت یا پھر مٹی بھی بھر دی جاتی ہے تاکہ مظاہرین انہیں راستے سے ہٹا نہ سکیں۔