1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

’رات خیرات کی، صدقے کی سحر ہوتی ہے‘

10 جون 2022

وہ افسردہ لہجے میں مجھے بتا رہی تھی، ’’میں ایک سات ماہ کے بچے کی ماں ہوں، جسے میں اپنی ماں کے پاس چھوڑ کر پیسے کمانے کے لیے یہاں آئی تھی۔ اب اس پُل کے نیچے رات بسر کرتی ہوں اور دن میں بھیک مانگتی پھرتی ہوں۔‘‘

https://p.dw.com/p/4CWx4
Kishwar Mustafa
تصویر: Privat

یہ اُس یوکرینی لڑکی کی کہانی ہے، جس سے میری ملاقات ایک انتہائی حسین مقام پر ہوئی۔ اصل میں میں ایسٹر کی چھٹیوں میں اپنی بیٹی کے ساتھ کیے ہوئے ایک وعدے کو نبھانے جنوب مغربی جرمن شہر لؤراخ گئی تھی۔ میری بیٹی کی بچپن کی سہیلی، جسے وہ ہمیشہ اپنی 'بیسٹ فرینڈ‘ کہتی ہے، گزشتہ برس جرمن شہر بون سے لؤراخ منتقل ہو گئی تھی کیونکہ اس کے والد کو وہاں بہتر روزگار کی پیشکش ہوئی، جسے اُس نے قبول کر لیا۔ دونوں بچیاں ایک دوسرے سے دور ہونے کی وجہ سے بہت اداس ہوگئی تھیں لیکن انہوں نے بذریعہ فون ایک دوسرے سے رابطہ برقرار رکھا۔

 میں اپنی بیٹی کے ساتھ ایک ویک اینڈ پر لؤراخ کے کسی ہوٹل میں قیام کرنا چاہتی تھی تاکہ وہ اپنی دوست کیساتھ وقت گزار سکے اور میں بھی جرمنی کے اس پُر فضا مقام کی سیر کر لوں۔ ایسٹر کی چھٹیوں کی وجہ سے ہمیں لؤراخ کے کسی ہوٹل میں کوئی کمرہ نہیں مل سکا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ میں نے ایک ایسے ہوٹل کے کمرے کی بکنگ کروا دی، جو یورپ کے ایک انتہائی منفرد اور تاریخی مقام میں واقع ہے۔

''درائے اک‘‘ یا تیکونا علاقہ، جو جرمنی، فرانس اور سوئٹزرلینڈ تینوں کی سرحدوں کا سنگم ہے۔ اس کا وہ علاقہ، جو جرمنی کا حصہ ہے، دریائے رائن پر واقع ہے۔ اس علاقے میں قائم ایک ہوٹل میں میں نے کمرہ بُک کروایا اور ہم وہاں پہنچ گئے۔ ہماری ٹرین کیونکہ تاخیر سے پہنچی، اس لیے ہوٹل پہنچنے تک رات کے گیارہ بج چُکے تھے اور میری بیٹی کا موڈ آف تھا کہ وہ فوراً اپنی دوست سے نہیں مل پائے گی۔ ہوا اس کے برعکس۔ اس کی دوست کی ماں اپنی بیٹی کیساتھ ٹرین اسٹیشن پر ہمارا انتظار کر رہی تھی۔ وہاں سے انہوں نے ہمیں ہوٹل پہنچایا۔ دونوں بچیوں نے کچھ وقت ایک دوسرے کیساتھ گزارا اور اس وعدے پر ایک دوسرے کو شب بخیر کہا کہ اگلی صبح سویرے وہ ملیں گی اور ویک اینڈ ساتھ گزاریں گی۔

اگلی صبح میری بیٹی اپنی دوست کیساتھ گھومنے پھرنے چلی گئی اور میں نے اُس علاقے کے بارے میں، جہاں یہ ہوٹل قائم تھا، انٹرنیٹ پر معلومات حاصل کرنا شروع کیں۔ اس ہوٹل سے کوئی دو سو میٹر کے فاصلے پر ایک پُل قائم ہے، جو دریائے رائن پر واقع ہے۔ میں ''دریائے اِک‘‘ کے اس انوکھے مقام کی تاریخ اور جغرافیہ جاننا چاہتی تھی۔ اس خوبصورت علاقے کی ثقافت اور روز مرہ زندگی کو قریب سے جاننے کا تجسس مجھے اس پُل کی طرف لے گیا۔ میں ہوٹل سے باہر نکلی، سنہری دھوپ مگر برفانی ہوا میں چہل قدمی بہت اچھی لگ رہی تھی۔ چند میٹر کا فاصلہ طے کیا تو میں نے دیکھا کہ سیاحوں کا ہجوم اس پل کے دونوں سرے پر تصویریں بنوانے میں مصروف ہے۔ میں بھی ان شائقین میں شامل ہو گئی اور ادھر اُدھر دیکھنے لگی کہ کوئی مناسب شخص مل جائے، جسے میں اپنا آئی فون دے کر چند تصاویر میں یہ خوبصورت مناظر عکس بند کروا لوں۔ میرے کانوں میں مختلف زبان بولنے والوں کی آوازیں آ رہی تھیں، جو اس مقام کی انفرادیت اور خوبصورتی پر تبصرہ کر رہے تھے۔

 انگریزی، جرمن، فرانسیسی، ہندی، اطالوی غرض مختلف زبان بولنے والے اُس جگہ تصویریں کھینچوا رہے تھے اور ایک دوسرے کو اس خوبصورت مقام کے بارے میں معلومات فراہم کر رہے تھے۔ میں ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ کس سے کہوں کہ میری چند تصاویر  کھینچ دے کہ اچانک پُل کے اُس طرف سے، جو فرانسیسی سرحدی علاقہ ہے، ایک کم سن لڑکی تیز قدموں کیساتھ میری طرف بڑھتی چلی آئی۔

ہاتھوں کے اشارے سے مجھ سے کہنے لگی میں آپ کی تصویریں بنا دوں؟ میں نے اسے سر سے پیر تک دیکھا اور جرمن زبان میں اُس سے پوچھا کہ وہ کہاں کی رہنے والی ہے؟ جواب میں اُس نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہا کہ وہ صرف انگلش اور یوکرینی زبان میں بات کر سکتی ہے۔ یوکرین کا نام سنتے ہی میرے ذہن میں اس کے پس منظر کا ایک خاکہ سا بن گیا۔ میں نے اپنا آئی فون اُسے دیا اور اس نے میری چند تصویریں کھینچیں۔

 پھر میں نے اُس سے کہا کہ وہ میرے ساتھ کسی کافی ہاؤس میں چلے اور ہم اکٹھا ناشتہ کریں۔ اُس نے برجستہ جواب دیا مجھے بھوک نہیں، آپ کچھ پیسے دے دیں میں بہت تنگ دست ہوں۔ میں نے ایک بار پھر اس لڑکی کو سر سے پیر تک دیکھا اور سوچنے لگی کہ یہ بھی کسی کی بیٹی ہے؟ اس کے والدین اس کا خیال کیوں نہیں کرتے؟ وہ چپ سادھے میرے سامنے کھڑی تھی۔ اس کی عمر بمشکل 16 یا 17 سال ہو گی۔

سیاہ رنگ کی تنگ سی پتلون، سیاہ رنگ کی کافی پرانی سی قمیض اور اوپر ایک چمڑے کی کالی جیکٹ، جو ایک طرف سے اُدھڑی ہوئی تھی۔ سنہرے بال، بھوری بھوری آنکھیں۔ بالکل کھڑے نقش مگر چہرے پر جیسے گرد اور ہونٹوں پر پپڑیاں جمی تھیں۔ میں نے پوچھا تم کہاں سے آئی ہو ؟ وہ کہنے لگی یوکرین سے۔

 میں نے پوچھا یہاں کیوں آئی اور کب سے ہو؟ اس نے بتایا کہ کورونا کی وبا سے پہلے وہ جرمنی کے اس حصے میں روزگار فراہم کرنے والی ایک ایجنسی کے ذریعے یہاں پہنچی تھی۔ جرمنی، فرانس اور سوئٹزرلینڈ تینوں کی سرحدوں کے سنگم پر واقعے اس علاقے میں بڑے بڑے ہوٹل ہیں اور یہ مرکزی سیاحتی مقام ہے۔ یہاں کے ایک ہوٹل میں اسے صفائی کا کام مل گیا تھا۔ چند مہینے اس نے یہ کام کیا، پیسے کمائے اور  بہتر مستقبل کا خواب دیکھنا شروع کر دیا۔

تب وہ چند میہنوں بعد یوکرین جا کر گھر والوں سے مل آیا کرتی تھی۔ اچانک پوری دنیا کی طرح اس علاقے کو بھی جب کورونا کی وبا نے اپنی لپیٹ میں لیا تو اس کی نوکری ختم ہو گئی اور ہوٹل کے مالک نے اسے نکال دیا۔ میں نے پوچھا تم کہاں رہتی ہو اور اب یہاں کیا کر رہی ہو؟ اس کا جواب تھا،''پہلے جب ہوٹل میں نوکری کرتی تھی تب دن بھر ہوٹل کی صفائی اور رات کو ایک چھوٹی وین میں دیگر کام کرنے والوں کیساتھ سویا کرتی تھی۔ اب کام ختم ہو گیا ، میرے بوس نے مجھے گاڑی میں سونے سے بھی منع کر دیا۔ اب میں دن بھر بھیک مانگتی اور رات کو اس پُل کے نیچے بسر کر تی ہوں۔ ‘‘

 میں نے کہا تم اپنے ملک یوکرین واپس کیوں نہیں جاتی؟ اُس کی آنکھوں میں آنسو اُمنڈ آئے۔ اس نے جواب میں کہا،''میں ایک سات ماہ کی بچی کو اپنی ماں کے پاس چھوڑ کر آئی تھی۔ میں اپنی بیٹی کو اپنی ماں کے سوا کسی کے پاس نہیں چھوڑ سکتی تھی۔ میں یہاں سے پیسے کما کر اپنی ماں کو بھیجتی تھی تاکہ وہ میری بچی اور میرے خاندان کے دیگر افراد کا پیٹ پال سکے۔ ‘‘

میں نے پوچھا کہ تمہارا شوہر کہاں ہے، بچی کو وہ کیوں نہیں دیکھتا؟ بڑی معنی خیز نگاہوں سے میر ی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی،''یوکرینی مرد اچھے نہیں ہوتے۔ ہمارے ساتھ بہت کم عمری میں شادی کر لیتے ہیں اور ایک بچہ ہوتے ہی ہمیں اور بچے کو بےیار و مددگار چھوڑ جاتے ہیں۔ کسی دوسری جوان لڑکی کے پاس، جس کے ساتھ وہ شراب نوشی اور کھانے پینے کیساتھ جنسی تسکین حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔‘‘

میرا اگلا سوال تھا کہ تمہاری عمر کیا ہے؟  اس کا جواب تھا 17 سال۔ میں نے کہا تم واقعی اپنے ملک واپس جانا چاہتی ہو؟ جواب میں اس نے ایک لاجواب کر دینے والا سوال مجھ پر جڑ دیا۔ کہنے لگی،'' آپ بھی یقیناً ماں ہوں گی، آپ اپنی اولاد سے کتنے عرصے دور رہ سکتی ہیں؟ سوکھے ہوئے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہنے لگی کہ آپ اپنی تصویریں دیکھ لیجیے اگر پسند نہ آئیں تو میں اور کھینچ دوں۔ میں اس کا اشارہ سمجھ گئی۔ وہ رخصت لینا چاہ رہی تھی اور شاید کچھ پیسوں کی منتظر تھی تاکہ وہ وقت ضائع کیے بغیر مزید بھیک مانگ سکے۔

 میں نے اپنے پرس سے بٹوا نکالا اور کچھ پیسے اُس کی جیب میں ڈال دیے۔ مجھے اُس کے نازک ہاتھوں میں پیسے رکھنا اچھا نہیں لگا۔ وہ بھی تو میری طرح کی ایک عورت ہے، اپنے زور بازو پر اُسے بھی تو فخر ہو گا۔ انہی ہاتھوں سے تو اُس نے اپنی ننھی معصوم بچی کو چھوا ہو گا، اسے پوشاک پہنائی ہو گی۔ اس کی بھی تو خواہش ہوگی کہ اس کی بچی بڑی ہو کر بہت اچھے اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرے، اپنے پیروں پر کھڑی ہو۔

 اس کی عزت نفس کو ٹھیس نہ لگے۔ میں نے اُس سے کہا تم کسی اور شہر چلی جاؤ شاید تمہیں کام مل جائے۔ یا پھر یوکرین اپنے ملک واپس جانے کی کرو۔ کہنے لگی کہ وہاں تو جنگ شروع ہو گئی ہے۔ یہاں رہ کر کوشش کرنا چاہتی ہوں کہ کسی طرح میری بچی اور میری ماں وہاں سے نکل کر جرمنی کے اس علاقے تک، میرے پاس پہنچ جائیں۔ یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے کا تاثر یہ بتا رہا تھا کہ اُسے معلوم ہے کہ یہ سب ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔

میرا بہت جی چاہا کہ اُسے اپنے ساتھ بون شہر لے آؤں اور ہو سکے تو چھوٹا موٹا کام دلوا دوں لیکن یہ بھی محض خواہش ہے اس سے زیادہ نہیں کیونکہ قوانین و ضوابط آج کی دنیا میں انسان کے نیک جذبوں اور ارادوں کو بھی غیر قانونی عمل یا جرم قرار دے دیتے ہیں۔ یورپ میں انسانوں کی اسمگلنگ ایک بہت بڑا مجرمانہ دھندا بنا ہوا ہے۔

 میرا اس لڑکی کو اکیلا چھوڑنے کا دل نہیں چاہتا تھا مگر وہ اب خود کو گفتگو کے اس دائرے سے نکل کر اپنی دنیا میں جلد از جلد واپس پہنچنا چاہ رہی تھی۔ میں نے اُس سے پوچھا،''تم رات کے اندھیرے میں اس پُل کے نیچے کیسے وقت کاٹتی ہو؟ پھیکی سی مسکراہٹ لیے وہ کہنے لگی،''دیکھیے اس پل پر، جہاں ہم کھڑے ہیں، یہ بہت ہی خاص مقام ہے۔ آپ کا دایاں پیر سوئٹزرلینڈ میں، بایاں جرمنی میں ہے اور وہ سامنے جس طرف آپ کا رُخ ہے فرانس نظر آ رہا ہے۔ ان تینوں کی سرحدیں یہاں پر ملتی ہیں اور تینوں سمت ہوٹل اور رسیتوران ہیں، جن کی روشنی رات میں مجھے جگائے رکھتی ہے اور صبح کی پہلی کرن اس دریا کے پانی پر پڑتی ہے تو مجھ میں انجانی سی قوت آ جاتی ہے۔ ایک نئے دن میں نئی جدوجہد کے آغاز کے عزم کیساتھ میں پھر سے پیسے کمانے کی کوشش شروع کر دیتی ہوں۔‘‘

 ابھی ہماری گفتگو اختتام کو پہنچنے ہی والی تھی کہ میرے فون پر میری بیٹی کی کال آئی۔ فون کی گھنٹی نے مجھے چونکا دیا، میں نے ہیلو کہا اُدھر سے میری بیٹی کی آواز آئی، ہیلو ماما، آپ کہاں ہیں؟ ماما میں اپنی بیسٹ فرینڈ کے پاس ہوں لیکن میں آپ کو مس کر رہی ہوں۔ آپ بس میرے پاس  آجائیں۔

 میں نے بیٹی سے کہا میں ابھی باہر ہوں، تھوڑی دیر میں ہوٹل پہنچ کر اُس سے بات کروں گی۔ یہ کہہ کر میں نے فون بند کیا۔ وہ یوکرینی لڑکی میرے بالکل پاس کھڑی تھی۔ میری بیٹی کا ماما پکارنا اُس نے بھی سنا، اُس کی آنکھوں میں اک چمک سی دکھائی دی اور وہ کہنے لگی ارے آپ کی بیٹی آپ کو بلا رہی ہے۔ کیا عمر ہے اُس کی، آپ مجھے اُس کی تصویر دکھا سکتی ہیں؟ بہت پیارے لہجے میں آپ سے بات کر رہی تھی۔ میرا دل جیسے کسی نے مسل دیا ہو، یہ بھی تو ایک ماں ہے، یہ اُسے دیکھے بغیر کیسے رہ رہی ہے؟ میں نے کوئی جواب نہیں دیا بس اُسے اتنا کہا کہ جتنا جلدی ممکن ہو وہ اپنی بیٹی کے پاس چلی جائے۔

آج کل ہر طرف یوکرین کی جنگ کا موضوع کسی نا کسی تناظر میں زیر بحث ہے۔ بڑی طاقتیں اپنی برتری ثابت کرنے اور اس جنگ کو اپنے سیاسی و اقتصادی مفاد کے لیے بدستور  استعمال کر رہی ہیں۔ ہار اور جیت کا تعلق دراصل جنگ کے میدان سے نہیں رہا۔ اس طرح کی جنگیں تو دنیا کے مختلف خطوں کی کئی نسلوں کو برباد کر دیتی ہیں۔

 تاریخ اس کی گواہ ہے مگر اب اس گواہی کی کوئی اہمیت نہیں رہی کیونکہ گواہی کا سوال تو عدالت میں اُٹھتا ہے۔ عدالت معاشروں میں ہر انسان کو انصاف فراہم کرنے کے لیے موجود ہوتی ہے۔ آج کے دور میں کوئی نظام انصاف کار گر ثابت ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ 'جس کی لاٹھی اُس کی بھنیس۔‘ یوکرین میں جنگ رکوانے کی کوششیں مزید اسلحہ کی فراہمی سے کی جا رہی ہیں۔ یوکرینی عوام کن مشکلات کا شکار ہے؟ یہ سوال تو کم ہی اُٹھایا جاتا ہے۔

 حقیقت تو یہ ہے کہ مشرقی یورپ کے متعدد ممالک عشروں سے غربت اور پسماندگی کا شکار رہے ہیں۔ وہاں سے یورپ کے اقتصادی طور پر مضبوط ممالک کی طرف قانونی اور غیر قانونی دونوں طریقے سے آنے والے مشرقی یورپی باشندوں کے مسائل پر توجہ مرکوز نہیں کی جاتی۔ خاص طور سے رومانیہ، بلغاریہ، یوکرین اور پولینڈ جیسی ریاستوں میں غربت، بے روزگاری، سماجی بد حالی ایک عرصے سے وہاں کے عوام کو دیگر ممالک کا رُخ کرنے پر مجبور کیے ہوئے ہے۔

ان حالات سے سب سے زیادہ متاثر خواتین اور بچے ہوتے ہیں اور  انہیں ہی ہر طرح سے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ میری ملاقات ایک یوکرینی لڑکی سے ہوئی، جس کی کہانی میں نے یہاں قلم بند کی ہے۔ جرمنی کے بازاروں اور مختلف محلوں کی گلیوں میں بھیک مانگتی یا کوئی چھوٹا موٹا کام کرتی غیر ملکی خواتین اکثر و بیشتر نظر آتی ہیں۔ ہر ایک خاتون کے پس منظر میں کوئی نا کوئی درد ناک کہانی چل رہی ہوتی ہے۔ 

اس لڑکی کا آنکھوں دیکھا حال اور اس کی باتیں سن کر میرے ذہن میں معروف بھارتی اداکارہ اور شاعرہ مینا کماری ناز کا ایک شعر آ گیا۔

پوچھتے ہو تو سنو کیسے بسر ہوتی ہے

رات خیرات کی، صدقے کی سحر ہوتی ہے