1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رابندر ناتھ ٹیگور: نفرتوں کے دور میں محبتوں کی کہانی

11 مئی 2021

برصغیر کی چند ہستیاں اس خطے کو ہمیشہ اپنے امن و محبت کے پیغام سے شاداب رکھیں گی۔ انہی میں سے ایک رابندر ناتھ ٹیگور ہیں جو تقسیم ہند سے پہلے کا وہ ورثہ ہیں جس کی کوئی سرحد نہیں ہے۔ صبا حسین کا بلاگ

https://p.dw.com/p/3tEce
DW-Urdu Blogerin Saba Hussain
تصویر: Privat

 

پہلی عالمی جنگ میں برطانوی فوج کے گورکھا رجمنٹ میں موجود ایک ہندوستانی فوجی کو جرمن فوجیوں نے قید کر لیا جس کی دونوں ٹانگیں زخمی کردی گئیں تھیں۔ صرف ایک ٹانگ کا کٹنا ہی اس سپاہی کی جان بچاسکتا تھا اور جرمن چیف سرجن اس شخص کی رضامندی یا کم از کم اعتماد کی کوئی علامت چاہتا تھا۔ لیکن انگریزی زبان نہ تو ہندوستانی فوجی اور نہ ہی جرمن میڈیکل آفیسرز جانتے تھے۔ انہوں نے اس سے جتنی زیادہ بات کرنے کی کوشش کی، وہ اتنا ہی پریشان اور خوفزدہ ہوا۔ شاید اس نے قیدیوں کے ساتھ دشمن کے سلوک کے بارے میں خوفناک کہانیاں سن رکھی تھیں۔ جرمن سرجن نے واحد ہندوستانی لفظ کے بارے میں سوچنا شروع کیا جو وہ جانتا تھا۔ پسینے سے شرابور اس جرمن فوجی نے جھکتے ہوئے سرگوشی کی: رابندر ناتھ ٹیگور! تین بار اس نے یہ دوہرایا۔ یہ سنتے ہی ہندوستانی فوجی کے چہرے پر سکون نظر آنے لگا، ایک شرمیلی مسکراہٹ آنکھوں میں آئی پھر اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ اس کا خوف ختم ہوگیا اور اس نے جرمن ڈاکٹروں سے اپنی رضامندی کا اظہار کر دیا۔

اردو زبان کا ارتقا

 

رابندر ناتھ ٹیگور کی پیدائش 7 مئی 1861 میں، بنگال کے ایک اعلی حسب و نسب خاندان میں ہوئی۔ یہ نوبل انعام یافتہ ادیب دبیندر ناتھ ٹیگور کی  چودھویں اولاد تھے۔ والد صاحب برہمو سماج تحریک کے سربراہ تھے۔ کلکتہ کے جورسانکو میں خاندانی گھر ثقافتی اور فکری سرگرمی کا ایک چھتہ تھا۔ ٹیگور کی تعلیم روایتی طریقہ سے تھوڑی ہٹ کر ہوئی۔ چار اسکول تبدیل کرنے کے بعد بالآخر  انہیں گھر میں ہی تعلیم دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ لہذا اب ٹیگور اساتذہ اور اپنی مدد آپ ہی سے گھر میں زیرِ تعلیم تھے جو زیادہ تر ادبی علوم کی نوعیت، اور سنسکرت، انگریزی اور بنگالی زبان میں ہوتی تھی۔ 1936 ء میں شانتی نکیتن کے بانی اس تعلیم دان نے شانتی نکیتن میں سامعین سے مخاطب ہوتے ہو ئے کہا،'' ہمارا ملک بے شمار ذرائع سے مردہ ذہن افراد کو تعلیمی مقاصد کے لیے اعلی سطح تک پہنچنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ شانتی نکیتن کی بنیاد ڈالنے کے پیچھے وہی روایتی تعلیم سے بغاوت کا عنصر تھا جس نے 1901 ء میں شانتی نکیتن کی بنیاد رکھی۔ 1901 میں رابندر ناتھ نے سلاڈاما سے شانتی نکیتن نقل مکانی کی اور وہاں ایک غیر روایتی اسکول کی بنیاد ڈالی۔زبانِ وقت، اس کے اثرات اور تقاضے

 

شاعری کرنے کا سفر بہت چھوٹی عمر سے شروع ہو گیا تھا۔ سترہ سال کی عمر میں ان کی پہلی شاعری کی کتاب قلمی نام بھانو سنگھا سے شائع ہوئی۔ ادب اور فن کے ساتھ مستقل وابستگی کے نتیجے میں 1913 ء میں انہیں اپنی شاعری کی کتاب 'گیتان جلی' کے کام پر نوبل انعام سے نوازا گیا۔

ٹیگور بچپن سے ہی غیر معمولی قدروں کے حامل انسان رہے۔ ان کا ایک پسندیدہ مشغلہ اعلی درجے کے ڈرامے دیکھنا تھا۔ جس طرح کے ڈرامے وہ پسند کرتے تھے ان کی عمر کی مناسبت سے انہیں صحیح نہیں سمجھا جاتا تھا۔ ان کی ڈرامہ بینی کی باقاعدہ حوصلہ شکنی ہوتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ان کو یہ ڈرامے خفیہ طور پر حاصل کرنا پڑتے تھے اور چھپ چھپاکر دیکھنے پڑتے تھے۔

آیور ویدک: 5 ہزار سال پرانی تہذیب کا نچوڑ

1878 ء میں جب وہ سترہ سال کی عمر کے تھے تو ابا نے تعلیم کے لیے انگلینڈ بھیج دیا لیکن وہ ڈگری لیے بغیر وطن واپس آگئے۔ تعلیم اور ڈگری کی بجائے انگلینڈ میں رابندرناتھ مغربی موسیقی کی طرف راغب ہوگئے اور یہ پہلی بار تھا کہ کلاسیکی ہندوستانی راگ میں اوپراٹک دھنیں استعمال کی گئیں۔

دسمبر 1883 ء میں ٹیگور کی شادی سے دو دن پہلے رابندر ناتھ کو اپنے والد کا ایک خط ملا۔ والد نے خط میں لکھا کہ وہ سلاڈاما میں خاندانی جائیداد کا انتظام سنبھالنے کے لیے خود کو تیار کریں۔ والد نے تجویز دی کہ وہ اسٹیٹ آفس میں وقت گزارا کریں، اکاؤنٹ کی جانچ کریں اور ان میں سے ہر ہفتے ان کا خلاصہ پیش کیا کریں۔ وہ اعدادوشمار کی وضاحت پیش کرتے رہے اور جب والد اپنے بیٹے کی کارکردگی اور دور اندیشی سے مطمئن ہوئے تو اسے سلاڈاما میں رہنے دیا۔

گاندھی: نئی کتاب میں مخفی پہلوؤں کا انکشاف

سلاڈاما کے گزرے شب و روز  نظموں، ڈراموں، گانوں ، میوزیکل ڈراموں اور مضامین کے حوالے سے زرخیز رہے، لیکن ان سب کے ساتھ ٹیگور نے  شارٹ اسٹوریز یا مختصر کہانیاں لکھنے  میں خوبصورت مہارت حاصل کرلی۔ 1891 ء سے 1901 ء کے بیچ  انہوں نے بنگال اور کلکتہ میں دیہاتوں اور قصبوں اور معاشرے میں ہر سطح کے کرداروں کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے انچاس کہانیاں لکھیں۔ ٹیگور کی کہانیاں سماجی المیوں کا نوحہ معلوم ہوتی ہیں۔ کرداروں کا انتخاب اتنا عام ہے کہ ان کہانیوں میں ہر کوئی اپنا عکس دیکھ سکتا ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ رابندرناتھ ٹیگور ہندوستان کے ان لکھاریوں میں شامل ہوتے ہیں جنہوں نے کہانی  نویس کی حیثیت سے عورت کے کردار کو آواز دی۔

رابندر ناتھ ٹیگور تقسیم ہند سے پہلے کا وہ ورثہ ہے جس کی کوئی سرحد نہیں ہے۔ سچ پوچھئیے تو ادب، فن اور تعلیم کا یہ ورثہ ہمیشہ تین ملکوں کی ہزار دوریوں کے باجود انہیں باہم جوڑے رکھنے کا ایک بہانہ ثابت ہوتا رہے گا۔

صبا حسین/ ک م