1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رابطہ کمیٹی فاروق ستار کو منانے میں ناکام

6 فروری 2018

ایم کیو ایم پاکستان ’کراچی کے فیصلے کراچی میں کرنے‘ کا وعدہ پورا کرتے ہوئے لڑکھڑا گئی۔ سینیٹ کے انتخابات کے لیے امیدواروں کے انتخاب کا معاملہ پارٹی کی مزید تقسیم کا سبب بنتا نظر آرہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2sCT2
Pakistan MQMs Farooq Sattar wird festgenommen bei paramilitärischen Kräfte
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan

ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کامران ٹیسوری کی معطلی کے فیصلے پر نظرثانی کی مشروط پیشکش کے باوجود ڈاکٹر فاروق ستار کو راضی کرنے میں ناکام نظر آ رہی ہے۔

مبصرین کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے رہنماؤں خصوصاﹰ پارٹی کنوینئر ڈاکٹر فاروق ستار اور سینیئر ڈپٹی کنوینئر عامر خان کے درمیان اختلافات کی اطلاعات تو قریب ایک ماہ سے میڈیا میں آ رہی تھیں، مگر ہر بار ایم کیو ایم کی جانب سے ان اختلافات کو اختلاف رائے کا تاثر دے کر زائل کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ گزشتہ برس نومبر میں ڈاکٹر فاروق ستارکے ’پاک سرزمین پارٹی‘ سے پہلے الحاق اور پھر اختلاف کے معاملے پر اندرونی اختلافات پہلی مرتبہ واضح طور پر نظر آئے لیکن ڈاکٹر فاروق ستار نے پارٹی سے علیحدگی کی دھمکی دے کر معاملے کو وقتی طور پر دبا تو دیا لیکن مکمل طور پر ختم نہیں کر پائے۔

پروفیسر عارف کی موت، سیاسی اثرات کیا ہوں گے

آرمی چیف کی بریفنگ، کیا سیاسی بے یقینی ختم ہو سکے گی؟

پیر پانچ فروری کو ایم کیو ایم کے مرکز بہادر آباد میں رابطہ کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا۔ جس میں سینیٹ کے انتخابات کے باعث خالی ہونے والی سینیٹ کی چار نشستوں کے لیے نئے امیدواروں کے ناموں پر غور کیا جانا تھا۔ رابطہ کمیٹی میں نسرین جلیل، فروغ نسیم، امین الحق، شبیر قائم خانی، عامر خان اور کامران ٹیسوری کے نام پیش کیے گئے۔ پہلے تین ناموں پر سب متفق تھے۔ عامر خان نے سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے سے معذرت کر لی۔ پارٹی سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے شبیر قائمخانی کی بجائے کامران ٹیسوری کو ٹکٹ دینے پر اسرار کیا مگر عامر خان اور دو ڈپٹی کنوینئرز خالد مقبول صدیقی اور کنور نوید جمیل سمیت کئی سرکردہ رہنماؤں نے باآواز بلند ڈاکٹر فاروق ستار کی مخالف کی اور بات تلخ کلامی کے باعث اتنی بڑھ گئی کہ ڈاکٹر فاروق ستار اجلاس چھوڑ کر چلے گئے اور ٹوئٹ کرکے اراکین رابطہ کمیٹی اور دیگر عہدیداروں کو اپنے گھر پر اجلاس میں شرکت کی ہدایت کر دی۔

رابطہ کمیٹی نے ڈاکٹر فاروق ستار کے بغیر اجلاس دوبارہ شروع کیا مگر اس اجلاس میں ڈپٹی کنوینئر کامران ٹیسوری کو رابطہ کمیٹی سے فارغ کرنے اور پارٹی نظم و ضبط کی شدید خلاف ورزیوں پر چھ ماہ کے لیے معطل کردیا گیا جس کا اعلان کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا، ’’ فاروق ستار پارٹی کنوینئر ہیں مگر فیصلے رابطہ کمیٹی کرتی ہے، ماضی میں مجبوری تھی لیکن اب پارٹی گھر سے نہیں چلے گی، لندن سے علیحدگی کے بعد یہی عہد کیا تھا کہ فیصلے رابطہ کمیٹی کرے گی۔‘‘

دوسری جانب ڈاکٹر فاروق ستار نے رات گئے رابطہ کمیٹی کی نیوز کانفرنس کا جواب دیتے ہوئے بغیر کنوئیر رابطہ کمیٹی کا اجلاس منعقد کرنے اور ڈپٹی کنویئر کو معطل کرنے کی فیصلوں کو ہی غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بہادر آباد اجلاس میں شریک رابطہ کمیٹی اراکین کو معطل کردیا اور آج ہی جنرل ورکرز اجلاس طلب کرلیا۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق کا کہنا تھا کہ کامران ٹیسوری کا نام ان چھ افراد میں شامل تھا کہ جنہیں رابطہ کمیٹی نے سینیٹ انتخابات کے لیے بطور امیدوار منتخب کیا۔ شبیر قائم خانی نے خود انہیں کہا تھا کہ اگر معاملہ انکے اور کامران ٹیسوری کے درمیان ہو تو فاروق ستار جو فیصلہ کریں گے، انہیں قبول ہوگا۔ فاروق ستار کا مزید کہنا تھا، ’’23 اگست کو بھی میں نے لندن قیادت سے علیحدگی کے فیصلے سے قبل کسی سے رائے نہیں لی تھی۔ اس وقت تو کسی نے میرے فیصلے پر شبہ کا اظہار نہیں کیا تو پھر آج کیوں؟‘‘

ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا یہ معاملہ کامران ٹیسوری کو ٹکٹ دینے کا نہیں ہے ’میری عقل و دانش، فہم و فراست پر پہلے بھی شبہ کا اظہار کیا جاتا رہا ہے لہذا اب میں صرف بااختیار سربراہ ایم کیو ایم کی صورت میں ہی بہادر آباد جاؤں گا‘۔

ڈاکٹر فاروق ستار کے اعلان کے مطابق ان کے گھر کے قریب اسٹیڈیم میں جنرل ورکرز اجلاس کی تیاریاں جاری تھیں کہ رابطہ کمیٹی کے سینیئر رکن رؤف صدیقی کی سربراہی میں سید سردار احمد اور جاوید حنیف کو ڈاکٹر فاروق ستار کے پاس بھیجا گیا جنہوں نے انہیں بتایا کہ ’رابطہ کیمٹی کامران ٹیسوری کے معاملے پر مشروط نظر ثانی کو تیار ہے البتہ آج کا جنرل ورکز اجلاس منسوخ کردیں اور بہادر آباد مرکز چلیں آپ کے سارے تحفظات دور کردیئے جائیں گے‘۔

فاروق ستار نے پیشکش کے جواب میں صاف کہہ دیا کہ جنرل ورکرز اجلاس تو ضرور ہوگا، رابطہ کمیٹی کے معطل اراکین اجلاس میں شریک ہوکر اپنے اقدام کی وضاحت پیش کریں اور اس کے بعد بھی وہ بہادر آباد مرکز صرف اس صورت میں جائیں گے کہ جب انہیں بااختیار سربراہ تسلیم کیا جائے۔

سینئر صحافی مظہر عباس نے موجودہ صورت حال پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’ایم کیو ایم پہلے ہی بیرونی دباؤ کا شکار ہے ایسے میں رابطہ کمیٹی کے سینیئر اراکین کے ڈاکٹر فاروق ستار پر عدم اعتماد ناقابل تلافی نقصان کا باعث بنے گا، اگر رابطہ کمیٹی کو ڈاکٹر فاروق ستار کے رائے سے اختلاف ہے بھی تو یہ وقت اور طریقہ اختلافات کے اظہار کے لیے موزوں نہیں ہے۔‘‘

ایم کیو ایم اور پی ایس پی: اتحاد اور پھر ’علیحدگی‘

کراچی: نئی سیاسی اُکھاڑ پچھاڑ کا شکار