1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ذہنی صحت کا عالمی دن اور پاکستان میں بڑھتے ذہنی امراض

Afsar Awan10 اکتوبر 2012

آج بدھ کے روز دنیا بھر کے دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی ’’ورلڈ مینٹل ہیلتھ ڈے‘‘ یعنی ذہنی صحت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/16NLR
تصویر: sad dogg design/Fotolia

پاکستان میں ذہنی امراض کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں ذہنی صحت کے حوالے سے شہریوں کی صورتحال اچھی نہیں ہے اور ملک میں ڈپریشن کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسی وجہ سے ملک میں خود کشیوں کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔

ذہنی امراض کی ایک معروف علاج گاہ فاؤنٹین ہاؤس کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر عمران مرتضٰی کے بقول: ’’ملک میں جاری دہشت گردی، بد امنی، خود کش بم دھماکے، غربت، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ اورخاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ کے علاوہ بے یقینی اور عدم تحفط کا بڑھتا ہوا احساس لوگوں میں اضطراب، بے چینی، چڑچڑاپن، غصہ اور ذہنی دباؤ پیدا کرنے کا باعث بنتا جا رہا ہے۔ جو کہ ان کی ذہنی صحت کے لیے مناسب نہیں ہے۔‘‘

’’دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات لوگوں کی بے حسی میں اضافے کا باعث بھی بن رہے ہیں‘‘
’’دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات لوگوں کی بے حسی میں اضافے کا باعث بھی بن رہے ہیں‘‘تصویر: Reuters

کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں ذہنی امراض کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر آفتاب آصف کے مطابق: ’’پاکستان میں تقریباﹰ 40 فیصد افراد مختلف قسم کے ذہنی مسائل کا شکار ہیں، ذہنی طور پر معذور افراد کے علاوہ یہاں ذہنی امراض کے شکار بہت سے لوگوں کو پاگل پن اور سوشل فوبیا (لوگوں سے ملنے جلنے سے کترانا) جیسی بیماریوں کا بھی سامنا ہے۔ پاکستان میں ذہنی مریضوں کی زیادہ تر تعداد خواتین پر مشتمل ہے اور پچھلے چند برسوں سے پاکستان میں حیرت انگیز طور پر نوجوان لڑکیوں اور بوڑھے والدین بھی ذہنی امراض دیکھے جا رہے ہیں۔‘‘

آغا خان ہسپتال سے وابستہ پاکستان ایسوسی ایشن آف مینٹل ہیلتھ کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر نعیم صدیقی نے بتایا کہ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ مغربی ملکوں میں شادی کو ذہنی صحت کے لیے ایک مددگار عنصر کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن پاکستان میں ذہنی امراض کی زیادہ تر شکار وہ خواتین ہیں جنہیں کاروکاری، وٹے سٹے کی شادی،جہیزکی لعنت اور متعصبانہ رویوں کے علاوہ سسرال میں غلط طرز عمل اور اس طرح کے دیگرمسائل کا سامنا ہے۔‘‘

’’پاکستان میں حیرت انگیز طور پر نوجوان لڑکیوں اور بوڑھے والدین بھی ذہنی امراض دیکھے جا رہے ہیں‘‘
’’پاکستان میں حیرت انگیز طور پر نوجوان لڑکیوں اور بوڑھے والدین بھی ذہنی امراض دیکھے جا رہے ہیں‘‘تصویر: DW

ان کے بقول آج کے پاکستان میں بچوں کو سکول بھیجتے ہوئے اور گھر کے سربراہ کودفتر بھیجتے ہوئے لوگ ڈرتے ہیں اور یہ ڈر ان لوگوں کی شخصیت میں سرایت کرکے ان کی ذہنی صحت کو متاثر کر رہا ہے، ان کے بقول دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات لوگوں کی بے حسی میں اضافے کا باعث بھی بن رہے ہیں۔ جنرل ڈاکٹر نعیم صدیقی کا مزید کہنا تھا: ’’اب دھماکہ ہونے کی صورت میں لوگ یہ نہیں پوچھتے کہ کیا ہوا ہے، وہ یہ پوچھتے ہیں کہ کونسا متبادل راستہ کھلا ہوا ہے۔‘‘ ان کے بقول کسی عدالتی کاروائی کے بغیر بے گناہ لوگوں کا ڈرون حملوں میں مارا جانا آبادیوں میں ٹراما اور ردعمل پیدا کرنے کا باعث بھی بن رہا ہے: ’’دکھ کی بات تو یہ ہے کہ مسائل کے شکار عوام نے دہشت گردی کے خوف سے سیر و تفریح کے لیے سوات، اور شمالی علاقوں کے دیگر تفریحی مقامات پر جانا ہی چھوڑ دیا ہے، جو کہ ذہنی صحت کے لیے بہت مفید تھا۔‘‘

ڈاکٹر نعیم کے بقول پاکستان میں لوگوں کی ذہنی صحت کو درپیش سنگین چیلنجز کے باوجود یہاں ذہنی امراض کا علاج حکومتی ترجیحات میں بہت پیچھے ہے، حکومت اپنے مجموعی بجٹ کا انتہائی قلیل حصہ صحت پرخرچ کرتی ہے اور صحت کے بجٹ کا بہت ہی کم حصہ ذہنی امراض کے علاج کے لیے خرچ کیا جاتا ہے۔

’’ذہنی امراض کے شکار بہت سے لوگوں کو پاگل پن اور سوشل فوبیا (لوگوں سے ملنے جلنے سے کترانا) جیسی بیماریوں کا بھی سامنا ہے‘‘
’’ذہنی امراض کے شکار بہت سے لوگوں کو پاگل پن اور سوشل فوبیا (لوگوں سے ملنے جلنے سے کترانا) جیسی بیماریوں کا بھی سامنا ہے‘‘تصویر: Fotolia/ lichtmeister

ان کے مطابق پاکستان کے 17 کروڑ عوام کے ذہنی امراض کے علاج کے لیے صرف ساڑھے چار سو تربیت یافتہ ماہر ڈاکٹر موجود ہیں جو کہ قطعی طور پر ناکافی ہیں۔ پاکستان میں صحت کا شعبہ اب صوبوں کے حوالے کیا جا چکا ہے، ابھی تک کسی بھی صوبے نے ذہنی امراض کے علاج کے لیے مینٹل ہیلتھ ایکٹ ہی پاس نہیں کیا ہے اور نہ ہی کسی صوبے میں مینٹل ہیلتھ اتھارٹی قائم کی جا سکی ہے۔

ماہرین کے مطابق مزاج کا چڑچڑاپن، غصہ، اداسی، نیند اور بھوک کا ڈسٹرب ہونا، وزن میں کمی بیشی، یکسوئی اور اعتماد میں کمی اور مایوسی کا در آنا ذہنی صحت کے متاثر ہونی کی علامات ہو سکتی ہیں ایسی صورت میں کسی نیم حکیم کے علاج یا جادو ٹونے کی بجائےکسی مستند ڈاکٹر سے رابطہ کرنے چاہیے۔

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سماجی رابطوں کو فروغ دے کر، قناعت پسندی اورسادگی کو اپنی زندگیوں میں رواج دے کر اور جسمانی ورزش اور تفریحی سرگرمیوں کو اپنا کر ذہنی صحت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: افسر اعوان