1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’دی جنگل بُک‘ کے مصنف کپلنگ کی 150 ویں سالگرہ

عاطف بلوچ4 جنوری 2016

برطانوی مصنف ریاڈرڈ کپلنگ اپنی مشہور زمانہ کتاب ’دی جنگل بُک‘ کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ اپنی پیدائش کے 150 سو برس بعد اب ان کی نو آبادیاتی نظام کے لیے حمایت باعث تنقید بنتی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1HXby
USA Walt Disney Das Dschungelbuch
تصویر: picture-alliance/dpa/Buena Vista

معروف برطانوی ناول نگار، افسانہ نگار اور شاعر ریاڈرڈ کپلنگ کی کتاب ’دی جنگل بُک‘ ان کی عوامی شہرت کی وجہ بنی تاہم ان کی دیگر تصنیفات بھی ادبی حلقوں میں بہت زیادہ مقبول ہوئیں۔ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسیوں صدی کے آغاز میں کپلنگ اپنی شہرہت کی بلندیوں پر تھے۔ کپلنگ نے ’دی جنگل بُک‘ 1894ء میں لکھی۔

کپلنگ کی دیگر کئی شہرہ آفاق کتابوں میں سن 1901 میں منظر عام پر آنے والی کتاب ’کم‘ بھی شامل ہے۔ انہیں ان کی ادبی خدمات کے باعث 1907ء میں ادب کے نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔

انگریزی ادب میں افسانہ نگاری میں انہوں نے کمالات دکھائے اور وہ اب بھی ادب کی اس صنف کے ابتدائی اساتذہ میں شمار کیے جاتے ہیں۔ کپلنگ کے افسانے، شاعری اور بچوں کے لیے لکھی گئی کتابوں کے متعدد زبانوں میں تراجم بھی کیے جا چکے ہیں۔

انڈیا سے محبت

کپلنگ نے اپنے ابتدائی بچپن اور جوانی کا کچھ عرصہ انڈیا میں گزارا تھا۔ اس لیے ان کی کہانیوں میں مشرقی رنگ کی عکاسی بھی نظر آتی ہے۔ تاہم جدید دور میں ان پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے نظریات میں نوآبادی نظام کے ایک بڑے حامی تھے۔

ارجنٹائن کے مشہور شاعر اور مصنف جارج لوئی بورگیس الزام عائد کرتے ہیں کہ کپلنگ نے نوآبادیاتی ںظام میں کیے جانے والے استحصال سے نہ صرف نظر چرائی بلکہ انہوں نے اسے ایک پرکشش مظہر قرار دیا۔

Großbritanien Rudyard Kipling
کپلنگ کو ان کی ادبی خدمات کے باعث 1907ء میں ادب کے نوبل انعام سے بھی نوازا گیاتصویر: Getty Images/Hulton Archive

کپلنگ تیس دسمبر 1865ء کو اس وقت کے انڈین شہر بمبئی میں پیدا ہوئے تھے۔ کپلنگ کے والدین نے اپنے بچے کی تربیت میں کوئی خاص دلچسپی ظاہر نہ کی۔ ان کی ابتدائی پرورش ایک پرتگالی خاتون اور انڈین ملازمین نے کی۔ ابتدا میں انگریزی ان کے لیے اجنبی زبان تھی۔ چھ برس کی عمر میں انہیں انگلینڈ روانہ کر دیا گیا، جہاں انہوں نے ایک بورڈنگ اسکول میں تعلیم حاصل کی۔

سن 1877ء میں ان کی والدہ بھی اپنے بیٹے کے پاس انگلینڈ چلی گئیں۔ کپلنگ نے اپنی سواںحی عمری میں اس دور کے سخت اور دل خراش واقعات کو قلم بند بھی کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ سترہ سال کی عمر میں وہ دوبارہ بھارت پہنچے، جہاں انہیں انتہائی خوشی ملی۔ کپلنگ کی کہانیوں میں اس دور کے واقعات کی عکاسی بھی نظر آتی ہے۔

‍زندگی کا اہم موڑ

کپلنگ نے انڈیا واپسی کو اپنی زندگی کا ایک اہم موڑ قرار دیا، جہاں اس وقت ان کے والد لاہور میوزیم کے ڈائریکٹر کا عہدہ سنبھال چکے تھے۔ اس دوران کپلنگ نے جلد ہی ہندی اور اردو زبان پر عبور حاصل کر لیا اور انہی زبانوں میں ادب کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی شروع کر دی۔ اس وقت انہیں ایک مقامی اخبار میں مدیرکی نوکری بھی مل گئی تھی۔ یوں انہیں اپنی صحافیانہ ذمہ داریاں نبھانے کے لیے برصغیر کے مختلف علاقوں میں گھومنے کا موقع بھی ملا۔

سن 1889 میں کپلنگ انگلینڈ لوٹ گئے جہاں انہوں نے اپنی ادبی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کا پہلا باقاعدہ ناول The Light That Failed سن1890 میں شائع ہوا، جسے ایک بڑے پیمانے پر پذیرائی ملی۔ شادی کے بعد وہ سن 1892ء میں اپنی اہلیہ کے ساتھ امریکا منتقل ہو گئے۔ وہاں انہوں نے بچوں کے لیے کتابیں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔

Großbritanien Rudyard Kipling
ہلی عالمی جنگ کے دوران کپلنگ کے فوجی بیٹے کی ہلاکت ان کے لیے سوہان روح بن گئیتصویر: Getty Images/Topical Press Agency

برطانیہ واپسی

ایک گھریلو تنازعے کی وجہ سے وہ کچھ برسوں بعد واپس برطانیہ چلے آّئے۔ اس دوران بھی انہوں نے لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اسی دور میں ان کے کچھ مضامین میں برطانوی سامراجیت کے حق میں ان کے متنازعہ بیانات بھی منظر عام پر آئے۔

کئی حلقے کپلنگ کو اس باعث اب تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔ تاہم جرمن بائیوگرافر اشٹیفان ویلس کے مطابق کپلنگ کھلے ذہن کے مالک تھے لیکن ان کی زندگی میں اس دور میں پائے جانے والی متضاد نظریات کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔

پہلی عالمی جنگ کے دوران کپلنگ کے فوجی بیٹے کی ہلاکت ان کے لیے سوہان روح بن گئی۔ اپنی بقیہ زندگی میں وہ اس صدمے سے باہر نہ آ سکے۔ وہ 1936ء میں ستر برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کی کہانیاں آج بھی زندہ ہیں۔ جدید ادب میں برطانیہ کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید