1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہلی فسادات: اب سابق وزیر سلمان خورشید کا نام چارج شیٹ میں

جاوید اختر، نئی دہلی
24 ستمبر 2020

بھارتی دارالحکومت دہلی میں فروری میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کے متعلق دہلی پولیس کی طرف سے دائر کردہ چارج شیٹ میں اب سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید کا نام بھی شامل کردیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3iw4L
Salman Khurshid
تصویر: AFP/Getty Images

دہلی پولیس نے دہلی فسادات کے متعلق عدالت میں پیش کردہ اپنی تازہ ترین چارج شیٹ میں کانگریس کے سینئر رہنما اور سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید کا نام بھی شامل کردیا ہے۔  ان پر'اشتعال انگیز‘ تقریریں کرنے کا الزام عائد ہے۔ 

دہلی پولیس کی چارج شیٹ میں سلمان خورشید کے علاوہ سابق رکن پارلیمان برندا کرات، سیتا رام یچوری،سپریم کورٹ کے وکیل پرشانت بھوشن، سماجی کارکن یوگیندر یادو،  ماہر اقتصادیات جیئتی گھوش، سائنس داں گوہر رضا، سی پی آئی (ایم ایل) پولٹ بیورو کی رکن کویتا کرشنن، جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق اسٹوڈنٹ لیڈر عمر خالد وغیرہ کے نام بھی 'اشتعال انگیز‘ تقریر کرنے والوں میں شامل ہیں۔

17000 صفحات پر مشتمل چارج شیٹ

پولیس کی طرف سے دائر کردہ 17000 صفحات پر مشتمل چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک وعدہ معاف گواہ نے مجسٹریٹ کے سامنے گواہی دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”عمر خالد، سلمان خورشید، ندیم خان... ان لوگوں نے دہلی میں شہری ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں کے دورا ن اشتعال انگیز تقریریں کی تھیں اور لوگوں کو اکسایا تھا۔"  دہلی پولیس نے گواہ کا نام نہیں بتایا ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ یہ شخص مظاہرے منعقد کرنے والی بنیادی ٹیم کا رکن تھا۔

دہلی پولیس نے کوڑاجمع کیا ہے

67 سالہ کانگریسی رہنما نے ان الزامات کے حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا”دہلی پولیس نے جو کوڑاجمع کیا ہے،اس پر میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ انہوں نے کوڑا جمع کیا ہے، جس کووہ چارج شیٹ کہہ رہے ہیں۔ کوڑے کے بارے میں میں کیا کہوں۔"

اس سوال کے جواب میں کہ آخر دہلی پولیس ایسا کیوں کررہی ہے؟ سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید کا کہنا تھا کہ ”ممکن ہے ان کو اپنا کام کرنا ہی نہیں آتا ہو۔ ان کو کام کرنے کا طریقہ اور سلیقہ ہی سمجھ میں نہیں آتا ہو یا پھر وہ کوڑا کٹھا کرنا چاہتے ہیں اور یہ سمجھتے ہوں کہ کوڑا اکٹھا کرنا ایک کامیاب چیز ہے اس لیے کوڑا اکٹھا کررہے ہیں۔"  دہلی پولیس براہ راست مرکزی وزارت داخلہ کے تحت کام کرتی ہے۔

فساد میں 40 مسلمان اور 13 ہندو مارے گئے تھے۔ 
فساد میں 40 مسلمان اور 13 ہندو مارے گئے تھے۔ تصویر: Reuters/P. De Chowdhuri

ٹرمپ کا دورہ اور فساد

خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دہلی دورے کے فوراً بعد شمال مشرقی دہلی میں 23 سے 27 فروری کے درمیان زبردست فسادات ہوئے تھے۔  جس میں 53 افراد کی موت ہوگئی تھی، سینکڑوں دکانیں اور مکانات جلا دی گئی تھیں۔ دہلی پولیس نے جولائی میں دہلی ہائی کورٹ میں دائر حلف نامے میں کہا تھا کہ اس فساد میں 40 مسلمان اور 13 ہندو مارے گئے تھے۔ 

انکوائری کی سازش

سماجی رہنماوں کا کہنا ہے کہ ان فسادات کی انکوائری کے سلسلے میں دہلی پولیس کے رویے اور رول پر ابتدا سے ہی سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ کیونکہ ہندو قوم پرست حکمراں جماعت کے جن رہنماوں نے کھلے عام اشتعال انگیز تقریریں کی ان کے خلاف پولیس کا رویہ انتہائی نرم رہا ہے۔ دوسری طرف مودی حکومت کے مخالفین کو یواے پی اے جیسے سیاہ ترین قانون کے تحت جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا جارہا ہے۔

 سماجی کارکن اور سوراج ابھیان کے بانی یوگیندر یادو کا کہنا تھا ”میں نے تین ماہ قبل ہی دہلی پولیس کے نئے کمشنر کو ایک خط لکھ کر کہا تھا کہ ”دہلی پولیس فسادات کے سازش کی انکوائری نہیں کررہی ہے بلکہ یہ انکوائری خود ایک سازش دکھائی دے رہی ہے۔"

آوازوں کو کچلنا ممکن نہیں

یوگیندر یادو کا مزید کہنا تھا کہ حکومت پرشانت بھوشن جیسے وکیل، اپوروانند جیسے ماہر تعلیم، برندا کرات جیسی سماجی کارکن اور جیئتی گھوش جیسی عالمی شہرت یافتہ ماہر اقتصادیات وغیرہ کے نام چارج شیٹ میں شامل کرکے دراصل لاکھوں لوگوں کو یہ اشارہ دینا چاہتی ہے کہ اگر حکومت کی پالیسیوں کے خلاف کچھ بولا تو تمہارا حشر بھی انہیں لوگوں جیسا ہوگا۔

قانون و انصاف اور امور خارجہ کے سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید کا تاہم کہنا تھا کہ مودی حکومت کواپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے لیے اس طرح کے اوچھے حرکتوں سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔  ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا”یہ تو حکومت کو خود ہی پتہ چل جائے گا،کہ اس کی ان حرکتوں سے اسے کتنا فائدہ ہوگا۔ حکومت اس طرح اگر روک سکتی ہے تو روک لے۔"

’بہن کا جہیز بھی جل کر راکھ ہو گیا‘: بھارتی شہری محمد اسلم

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں