1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہشت گردی: اسلام آباد اور کابل کے مابین کشیدگی بڑھتی ہوئی

عبدالستار، اسلام آباد
16 فروری 2017

مسئلہ افغانستان پر ماسکو میں چھ ملکی بات چیت کے باوجود کابل اور اسلام آباد کے مابین کشیدگی بڑھتی نظر آرہی ہے۔ حالیہ ہفتوں میں دونوں ممالک نے پھر ایک دوسرے پر اپنے ہاں دہشت گردوں کو پناہ گاہیں مہیا کرنے کے الزامات لگائے۔

https://p.dw.com/p/2XhCr
Pakistan Polizei und Rettungskräfte nach der Explosion in Lahore
کئی پاکستانی ماہرین کا کہنا ہے کہ لاہور میں حالیہ خونریز حملے کے ماسٹر مائنڈ افغانستان میں بیٹھے ہیںتصویر: Reuters/Stringer

پاکستان میں کئی تجزیہ نگار یہ دعوے کر رہے ہیں کہ لاہور میں حالیہ دہشت گردانہ حملے کے ماسٹر مائنڈ افغانستان میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان ماہرین کے مطابق افغان خفیہ ادارے اور بھارتی ایجنسی ’را‘ پاکستان مخالف عناصر کی سرپرستی کر رہے ہیں جب کہ کابل حکومت کی طرف سے بھی ملک میں دہشت گردی کے کسی بھی واقعے کے بعد پاکستان پر اسی طرح کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔

اس کشیدگی کی وجوہات کی وضاحت کرتے ہوئے معروف دفاعی تجزیہ نگار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسند افغانستان کے صوبے کنٹر، ننگرہار اور دوسرے علاقوں میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں کروا رہے ہیں۔ ملا فضل اللہ اور جماعت الاحرار کے شدت پسندوں کو کس نے پناہ دے رکھی ہے؟ لاہور حملے کے لیے بھی دہشت گرد افغانستان سے آئے۔ تو افغانستان میں ’را‘ کی موجودگی، ’را‘ اور افغان سراغ رساں اداروں کے مابین قریبی روابط اور پاکستان دشمن شدت پسند عناصر کی پشت پناہی وہ عوامل ہیں جو دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں۔ کابل حکومت ان عناصرکے خلاف کارروائی کرنے پر تیار نہیں، جو پاکستان میں دہشت گردی پھیلا رہے ہیں۔ ان عناصر کے خلاف کارروائی نہیں ہو گی، تو کشیدگی بھی بڑھے گی۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں اعجاز اعوان نے کہا، ’’افغان طالبان پاکستانی طالبان کو پاکستان میں حملے کرنے سے نہیں روک سکتے۔ دونوں نظریاتی طور پر ایک ہی ہیں۔ پاکستانی طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ مشرف حکومت نے افغان طالبان کو دھوکا دیا تھا۔ میں پاکستانی طالبان کے خلاف سوات اور دیگر علاقوں میں خود لڑا ہوں۔ ہم نے سوات میں ان کی کمیونیکیشن intercept کی تھی، جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف اس لیے آگ بگولہ تھے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ دیا تھا، امریکا کو لاجسٹک امداد فراہم کی تھی، انہیں ڈرون طیاورں کے لیے شہباز ایئر بیس بھی دی تھی۔ پاکستانی طالبان کے خیال میں پرویز مشرف نے امریکی امداد کے لیے افغان طالبان کے ساتھ غداری کی، یہاں تک کہ ان کے سفیر کو بھی امریکا کے حوالے کر دیا۔ پاکستانی طالبان میرے خیال میں افغان طالبان کی بات اس وقت تک نہیں سنیں گے جب تک انہیں یہ یقین نہ ہو جائے کہ پاکستان نے امریکا کی حمایت ترک کر دی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان امریکی حمایت ترک نہیں کر سکتا۔ پاکستانی طالبان حکمرانوں کو منافق سمجھتے ہیں اور ان کے خیال میں پاکستانی حکومت اور فوج امریکی پیسے کے لیے لڑ رہے ہیں۔‘‘

Afghanistan Taliban attack guest house in Kabul
افغانستان میں کسی بھی بڑے دہشت گردانہ حملے کے بعد کابل حکومت کی طرف سے انگلی اسلام آباد کی طرف ہی اٹھائی جاتی ہےتصویر: picture-alliance/dpa/J. Jalali

تاہم اعجاز اعوان نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ پاکستان افغانستان میں عدم استحکام پھیلا رہا ہے۔ ’’امریکا اور کابل حکومت اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے پاکستان پر الزامات لگاتے ہیں۔ وہاں سیاسی طور پر ایک مخلوط حکومت ہے، جس میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ چھ وزیر تبدیل ہو چکے ہیں جب کہ دو مستعفی ہو چکے ہیں۔ امریکی فوجی حملے کے بعد ملک میں پختونوں کی حکومت ختم کر دی گئی تھی اور اب پختونوں کو افغان حکومت میں مناسب نمائندگی حاصل نہیں۔ وہاں اقلیت کی حکومت قائم کی گئی ہے، جس کی وجہ سے امریکا ناکام ہو رہا ہے۔ وہ اس ناکامی کا الزام کسی نہ کسی کے سر تو تھوپے گا ہی۔ ایک امریکی جنرل نے کہا ہے کہ ٹی ٹی پی داعش کو مدد فراہم کر رہی ہے۔ اتنے سالوں کی لڑائی کے بعد اگر صورت حال یہ ہے تو پھر اسے کامیابی تو نہیں کہا جا سکتا۔‘‘

پاکستان کی نیشنل یونیورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ادارہ برائے عالمی امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکر نجم الدین کا کہنا ہے کہ خطے میں بہت سے تبدیلیاں ہو رہی ہیں اور امریکا کا ماسکو میں مذاکرات کے لیے نہ بلایا جانا انہی تبدیلیوں کا مظہر ہے۔

ماسکو میں ان مذکرات پر اپنی رائے دیتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میرے خیال میں خطے کے ممالک یہاں امریکی موجودگی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ امریکا افغانستان کے مسئلے کو حل کرنا ہی نہیں چاہتا۔ اگر آپ دیکھیں تو شام سے متعلق مذاکرات میں بھی امریکا کو شامل نہیں کیا گیا تھا اور اب عرب دنیا بھی امریکا سے ناراض ہے۔ امریکا کے بغیر اجلاس کرنا اور اس میں افغانستان سمیت خطے کے دوسرے ممالک کی شرکت اس بات کا عندیہ ہے کہ علاقائی مسئلے کو خطے کے ممالک ہی حل کریں گے،‘‘

Polen Nato-Gipfel in Warschau - Ghani & Abdullah
’موجودہ افغان حکومت ایک مخلوط سیاسی انتظامیہ ہے، جس میں داخلی اختلافات بھی پائے جاتے ہیں‘تصویر: Reuters/K. Pempel

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر بکر نجم الدین نے کہا، ’’یہ ایک بحث طلب مسئلہ ہے کہ آیا پاکستانی طالبان افغان طالبان کے حلقہء اثر میں ہیں۔ میرے خیال میں گو کہ دونوں کے مابین نظریاتی قربت ہے اور ایک وقت میں ان کا دشمن بھی ایک ہی تھا، لیکن اب افغان طالبان کی لڑائی ایک غیر ملکی دشمن سے ہے اور وہ صرف اپنے ملک کو آزاد کرانا چاہتے ہیں جب کہ پاکستانی طالبان کے مقاصد عالمگیر لگتے ہیں اور وہ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ عالمی جہادی تحریک کا حصہ ہیں۔ میرے خیال میں ان کے مسائل بوکو حرام کی طرح ایک علاقے تک محدود ہیں لیکن وہ اپنے آپ کو طاقتور ثابت کرنے کے لیے اپنا ’عالمی ایجنڈا‘ دکھاتے ہیں۔ افغان طالبان کا پاکستانی طالبان پر اتنا اثر نہیں کہ وہ ان کے احکامات کی تکمیل کریں۔ تو حقانی نیٹ ورک ہو یا افغان طالبان، وہ اس حوالے سے پاکستان کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔‘‘

ایک اور سوال کے جواب میں ڈاکٹر نجم الدین نے کہا، ’’ایک دوسرے پر الزامات لگانے کی روایت پڑ گئی ہے، جس سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ اس کے علاوہ افغان مہاجرین کے ساتھ پاکستانی انتظامیہ کے سلوک نے بھی افغانستان میں پاکستان مخالف ماحول کے پنپنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جب تک یہ الزام تراشیاں ختم نہیں ہوں گی، کشیدگی جاری رہے گی۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں