1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دھرنا ختم لیکن تنقید و تبصرے جاری

عبدالستار، اسلام آباد
27 نومبر 2017

پاکستان کے وفاقی دارالحکومت میں مذہبی تنظیموں کے دھرنے کے اختتام کے ساتھ ہی اس احتجاج کو ختم کرانے کے انداز پر تنقید اور بحث شروع ہوگئی ہے۔

https://p.dw.com/p/2oKp0
Pakistan Proteste
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

مذہبی تنظیموں نے تین ہفتوں سے زیادہ اپنا دھرنا جاری رکھا، جس کی وجہ سے اسلام آباد اور راولپنڈی میں کاروبارِ زندگی بری طرح متاثر رہا اوربعد میں اس دھرنے سے یکجہتی کے لیے ملک کے مختلف علاقوں میں بھی مظاہر ے اور دھرنے شروع ہوگئے تھے، جس نے ملک میں افراتفری کی سی صورتِحال پیدا کر دی تھی۔

’کیا فوج جی ایچ کیو کے باہر بھی دھرنے کی اجازت دے گی‘

پاکستانی وزير قانون مستعفی، دھرنا ختم

حکومت نے ہفتے کو یہ دھرنا ختم کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا لیکن صورتِ حال اس سے مزید بگڑ گئی اور حکومت کو بالآخر مظاہرین کے مطالبات ماننے پڑے اور وزیرِ قانون زاہد حامد کو استعفیٰ دینا پڑا۔ اس دوران نو ن لیگ کے رہنماؤں کے گھروں اور ڈیروں پر بھی حملے ہوئے جب کہ اس جماعت کے کچھ ارکان نے اپنی پارٹی سے علیحدگی کا بھی اعلان کیا۔

تاہم اب حکومت کے کئی اقدامات پر تنقید ہورہی ہے اور فوج کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔

سب سے توانا آواز اسلام آباد ہائی کورٹ سے آئی جہاں جسٹس شوکت صدیقی نے حکومت سے یہ سوال کیا کہ ’فوج کیسے خودثالث ن سکتی ہے۔ آئین نے کہاں انہیں یہ اجازت دی ہے‘؟

تجزیہ نگاروں کے خیال میں اس دھرنے کے آنے والے وقتوں میں پاکستانی سیاست پر دور رس اثرات ہوں گے۔ معروف سیاسی مبصر سہیل وڑائچ کے خیال میں اس احتجاج سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ یہ حکومت بہت ہی کمزور ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے وڑائچ کا کہنا تھا، ’’میرے خیال میں اب اگر حکومت پر ذرا سا بھی اور دباؤ آیا تو یہ گر جائے گی۔ اس دھرنے سے نون لیگ میں دراڑیں پڑ گئی ہیں اور آنے والے ہفتوں میں نون لیگ کے ارکان مختلف بہانوں کا سہارا لے کر پارٹی چھوڑیں گے یا پھر پارٹی میں فاروڈ بلاکس بنیں گے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ نون لیگ سینیٹ کے انتخابات نہ کرا سکے اور اس سے پہلے ہی ملک میں عام انتخابات ہوجائیں۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’اس ملک میں معزز ججز بہت طاقت ور ہیں، وہ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں لیکن لوگ اس وقت آرمی پر تنقید نہیں کر رہے۔ تاہم یہ ممکن ہے کہ آنے والے وقتوں میں فوج کے کردار پر بھی تنقید ہو۔‘‘

یہ کام کوئی سیاسی کارکن نہیں کر سکتا، مجیب الرحمان شامی

ایک دور میں میاں نواز شریف کے قریب رہنے والے نون لیگ کے ناراض رہنما ظفر علی شاہ کے خیال میں اب نون لیگ میں ٹوٹ پھوٹ مزید تیز ہوگی۔ اس دھرنے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ظفر علی شاہ نے کہا، ’’جب سے نواز شریف کو نااہل کردار دیا گیا تھا، نون لیگ کے مسائل چل رہے تھے ۔ تاہم اب ان کے مسائل میں اضافہ ہوگا۔ کئی ارکان پارٹی چھوڑنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ لیکن ان سارے مسائل کے باوجود میاں نواز شریف اپنی ضد نہیں چھوڑیں گے۔ وہ آنے والے دنوں میں اداروں پر مزید تنقید کریں گے، جس کی وجہ سے ملک میں کشیدگی بڑھے گی ، جو جمہوریت کے لیے مثبت نہیں ہوگی۔‘‘

لاہور سے تعلق رکھنے والے احسن رضا کے خیال میں سیاست دانوں کو اس خطرے کا احساس کرنا چاہیے، جس کا سامنا آنی والے وقتوں میں پورا معاشرہ کرے گا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے رضا نے کہا، ’’ہمارے حاکم طبقات نے نیک محمد اور بیت اللہ محسود کے ساتھ معاہدے کیے اور انہیں ہار پہنائے، جواب میں انہوں نے پورے ملک کو خاک و خون میں نہلایا۔ نواز شریف فیملی نے ماضی میں فرقہ وارانہ عناصر کی پشت پناہی کی۔ یہاں تک کہ شہباز شریف ان کی مدد سے بھکر میں انتخابات جیتے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پورے ملک میں یہ عناصر فرقے کے نام پر لوگوں کو قتل کرتے رہے۔ ہمیں بھولنا نہیں چاہیے کہ طالبان نے بھی پہلے صرف سیاست دانوں کو گالیاں دی تھیں اور انہیں نشانہ بنایا لیکن بعد میں وہ ہر ادارے کے لیے ایک ناسور بن گئے تھے۔‘‘

پاکستان: دھرنے کے بارے میں پانچ اہم باتیں