1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈیجیٹل شراکت داری کی راہ میں رکاوٹیں

قرةالعین زمان
1 اگست 2019

پسماندہ علاقوں میں طویل عرصے سے انٹرنیٹ کی عدم فراہمی کے علاوہ جن خطوں میں انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہے بھی، وہاں بھی حکام حساس مذہبی اور سیاسی بحرانوں کے دوران موبائل انٹرنیٹ سروس بند کر دیتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3N8U6
DWA DW Akademie speakup barometer
تصویر: DW

پاکستان میں انٹرنیٹ کے استعمال پر عائد کردہ بھاری ٹیکس ڈیجیٹل شراکت داری میں اضافے کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔

  •      انٹرنیٹ کے پھیلاؤ میں اضافہ ہو رہا ہے تاہم اس کا استعمال اب بھی کم ہے۔

  •      انٹرنیٹ تک رسائی پر عائد کردہ ٹیکسوں کی شرح بہت زیادہ ہے۔

  •      ملک کے بعض حصوں میں انٹرنیٹ اب بھی دستیاب نہیں اور جہاں ہے، وہاں اسے پابندیوں کا سامنا ہے۔

  •      ای کامرس (آن لائن تجارت) اور ڈیجیٹل ادائیگیوں کے نظام تک رسائی تاحال آسان نہیں ہے۔

بیس کروڑ سے زائد کی آبادی والے ملک پاکستان میں اپریل 2018ء تک انٹرنیٹ کی دستیابی کی شرح اکیس فیصد تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تب ملک میں تقریباﹰ  ساڑھے چار کروڑ صارفین انٹرنیٹ استعمال کر رہے تھے۔ مجموعی آبادی کے تناسب سے ان صارفین کی یہ تعداد کم ہے لیکن یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے شہریوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے اعداد و شمارکے مطابق پاکستان میں پندرہ کروڑ صارفین موبائل فون استعمال کر رہے ہیں، جو کہ ملک کی مجموعی آبادی کا چوہتر فیصد بنتا ہے۔ تاہم ان میں سے صرف اٹھا ئیس فیصد موبائل انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں۔ ایک غیر حکومتی امریکی تنظیم فریڈم ہاؤس کی 2018ء میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں موبائل ٹیلیکوم سروسز میں آنے والی بہتری نے دیہی علاقوں میں بھی لوگوں کو انٹرنیٹ سے جوڑ دیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق شہری علاقوں میں اب بھی وائرلیس انٹرنیٹ پر ہی زیادہ انحصار کیا جاتا ہے۔

اسی صورت حال کے نتیجے میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کو ان دس ممالک کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے، جہاں انٹرنیٹ کا استعمال دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔

پاکستان میں ٹیلی مواصلات کا ترقی پذیر ڈھانچہ اور بھاری ٹیکسوں کا نفاذ بھی انٹرنیٹ کے پھیلاؤ کی راہ میں اہم رکاوٹیں ہیں۔

 اگرچہ حالیہ چند برسوں کے دوران مجموعی طور پر پاکستان میں انٹرنیٹ کی قیمتوں میں کمی آئی ہے تاہم ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں حکومت نے انٹرنیٹ کے استعمال پر 19.5 فیصد سیلز ٹیکس عائد کر رکھا ہے۔ اس طرح کے ٹیکسوں کا نفاذ بہت سے ممکنہ صارفین کی انٹرنیٹ تک رسائی کو مشکل بنا دیتا ہے۔ اسی طرح پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا میں بھی صوبائی حکومت نے انٹرنیٹ کے استعمال پر 19.5 فیصد سیلز ٹیکس عائد کر دیا، جسے پی ٹی اے نے چیلنج تو کیا لیکن بعد میں صوبائی ہائی کورٹ نے اس ٹیکس کو بحال کر دیا۔

ایک غیر سرکاری تنظیم 'بائٹس فار آل‘ کے ڈائریکٹر شہزاد احمد کے مطابق ٹیکسوں کی بھاری شرح انٹرنیٹ کا دائرہ کار وسیع کرنے کی راہ میں بڑی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ انہوں نے کہا، ''بہت سے غربت زدہ علاقوں میں جہاں لوگوں کو دو وقت کی روٹی کے لیے بھی جدوجہد کرنا پڑتی ہے، وہاں انٹرنیٹ پر ٹیکسوں کے نفاذ کا مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگ ان اخراجات کی ادائیگی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔‘‘

انٹرنیٹ پر پابندیاں اور رسائی میں رکاوٹیں

SYMBOL Pakistan schaltet nach Anschlägen Mobilfunk- und Internetdienste ab
انٹرنیٹ پر پا بندیاں عائد کرنے والے ممالک میں پاکستان اپنے ہمسایہ ملک بھارت کے بعد دوسرے نمبر پر تھاتصویر: picture alliance/Photoshot

پاکستان میں حکومت سیاسی اور مذہبی نوعیت کے بحرانوں کے دوران انٹرنیٹ سروس معطل کر دینے کا طرز عمل بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ انٹرنیٹ کی صورتحال پر نظر رکھنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم 'رسائی اب‘ (Access Now) کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری 2016 ء سے مئی 2018 ء تک کے درمیان انٹرنیٹ پر پا بندیاں عائد کرنے والے ممالک میں پاکستان اپنے ہمسایہ ملک بھارت کے بعد دوسرے نمبر پر تھا۔

شہزاد احمد کے مطابق، ''اس عرصے کے دوران پاکستان میں حکومت نے انیس مرتبہ انٹرنیٹ سروس بند کی۔ ان میں سے گیارہ مرتبہ بندش سال 2018ء کے دوران دیکھی گئی۔‘‘

2018ء میں صرف اکتوبر کے مہینے میں ملک کے مختلف حصوں میں انٹرنیٹ سروس تین مرتبہ بند کی گئی۔ ان تین مواقع میں سے ایک بار ایسا انسانی حقوق کی ایک تحریک کو خاموش کرانے، دوسری مرتبہ ایک سرکاری چھٹی کی تقریبات منانے کے لیے اور تیسری مرتبہ دائیں بازو کی ایک مذہبی تحریک کے کارکنوں کوسڑکوں پر احتجاج سے باز رکھنے کے لیے ایسا کیا گیا۔

شہزاد احمد کا مزید کہنا تھا، ''انٹرنیٹ سروسز کی غیر اعلانیہ معطلی کے واقعات کی تعداد کئی زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ ان میں سے بہت سے مواقع کی باقاعدہ اطلاعات درج ہی نہیں کرائی جاتیں۔‘‘

یہ صورت حال اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس حکم کے باوجود پائی جاتی ہے، جس کے تحت عدالت نے فروری 2018ء میں انٹرنیٹ سروسز کی بندش کے حکومتی اقدام کو غیر قانونی  قرار دے دیا تھا۔ اس عدالتی فیصلے کو ڈیجیٹل حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے خوش آئند قرار دیا تھا۔ تاہم عدالت نے صرف ایک ماہ بعد ہی اپنا یہ حکم منسوخ کر دیا تھا اور اس بارے میں ایک مقدمہ تاحال زیر التواء ہے۔

انٹرنیٹ سے منسلک معاملات کے بارے میں رہنمائی کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم لِنکڈ تِھنگز (Linked Things) سے وابستہ صوفیہ حسنین کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ پر پابندی اظہار رائے کی آزادی کے لیے خطرہ ہے۔ صوفیہ حسنین کے بقول، ''حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے مظاہروں کے دوران انٹرنیٹ پر پابندی مظاہرین کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھنے سے کم نہیں۔‘‘

غیر سرکاری تنظیموں ڈیجیٹل فاؤنڈیشن اورنیٹ بلاک کے مطابق سابقہ حکومت کے خلاف مبینہ توہین مذہب پر سخت گیر مذہبی گروپوں کے احتجاج کے دوران ٹوئٹر اور فیس بک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بلاک کر دیا گیا تھا۔

بائٹس فار آل کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق انٹرنیٹ کی بندش کے طریقہ کار میں عدم شفافیت
لوگوں میں خوف و ہیجان کے پھیلاؤ کا باعث بنتی ہے۔ اس بندش کی وجہ سے مختلف بحرانی حالات اور احتجاجی مظاہروں کے دوران اپنے گھروں سے باہر کسی بھی طرح کی صورت حال میں پھنس کر رہ جانے والے افراد اپنے اہل خانہ اور احباب سے رابطے نہیں کر پاتے۔

شہزاد احمد انٹرنیٹ پر پابندیوں کے عمل سے قدرے مایوس ہو کر کہتے ہیں، ''مجھے مستقبل قریب میں بھی حالات کے سدھر جانے کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔‘‘

انٹرنیٹ کی ترقی کے ڈھانچے میں جمود

پاکستان میں انٹرنیٹ کے ڈھانچے کی ترقی جمود کا شکار ہے۔ کسی بھی انٹرنیٹ رابطے کی رفتار معلوم کرنے والی کمپنی 'اُوکلا‘ (Ookla) کی عالمی درجہ بندی کے مطابق پاکستان موبائل انٹرنیٹ کی رفتار کے لحاظ سے دنیا میں 102 ویں جبکہ براڈبینڈ انٹرنیٹ کی رفتار کے لحاظ سے 114ویں نمبر پر ہے۔

پاکستان میں موبائل انٹرنیٹ کے ذریعے ڈیجیٹل مواد ڈاؤن لوڈ کرنے کی اوسط فی سیکنڈ رفتار 13.56 میگا بٹس ہے جوکہ عالمی سطح پر اوسط رفتار کے مقابلے میں خاصی کم ہے۔ تا ہم 'اوپن سگنل‘ نامی ادارے کی ایک تحقیق کے مطابق فون انٹرنیٹ کی رفتار اب بھی وائی فائی سے بہتر ہے۔

دریں اثناء پی ٹی اے نے 2017ء سے ملک میں تیز رفتار انٹرنیٹ کے لیے فائیو جی ٹیکنا لوجی متعارف کرانے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ پی ٹی اے کی طرف سے جاری کردہ ایک دستاویز میں ملک کے مختلف حصوں میں فائیو جی ٹیکنالوجی کے 2019ء میں تجرباتی بنیادوں پر آغاز کا اعلان کر دیا گیا۔ پاکستان میں فائیو جی ٹیکنالوجی کے تجارتی بنیادوں پر استعمال کی اجازت 2020ء میں دے دی جائے گی۔

پاکستان انٹرنیٹ کے ذریعے تجارت یعنی ای کامرس اور رقوم کی آن لائن ادائیگیوں کے نظام میں بھی پسماندگی کا شکار ہے۔

پاکستان میں ڈیجیٹل ماحول کے فروغ کے لیے کوشاں سعد حامد کا کہنا ہے، ''لوگوں کو پےپال (paypal) جیسی آن لائن سروس تک رسائی حاصل نہیں۔ صارفین اشیاء کی وصولی کے بعد نقد رقم کے ذریعے ادائیگیاں کرتے ہیں، جس سے سیاہ معیشت یا 'بلیک اکانومی‘ کے لیے راستے کھلتے ہیں کیونکہ اس طرح کی ادائیگیوں کا کوئی اندراج یا ریکارڈ نہیں ہوتا۔ اس طرح کے لین دین پر کوئی ٹیکس بھی شاذ و نادر ہی ادا کیا جاتا ہے۔‘‘

پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد پےپال کی سہولت پاکستان لانے کے لیے ایک ٹاسک فورس کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ سعد حامد کے مطابق اگر ایسا ہو جاتا ہے، تو پاکستانی معیشت میں انقلاب لایا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں انٹرنیٹ سروسز میں بہتری لانے کے لیے متعدد اقدامات اپنی تکمیل کے قریب ہیں۔ ان میں پاکستان اور چین کے درمیان اربوں ڈالر مالیت کے سی پیک اقتصادی منصوبوں کے مجموعے کے تحت 'پاک چائنہ فائبر آپٹک‘ کا ایک منصوبہ بھی شامل ہے۔

اس منصوبے کے تحت چین سے پاکستانی شہر راولپنڈی تک تیز رفتار فائبر آپٹک انٹرنیٹ لائن بچھائی جائے گی۔ اس منصوبے کا آغاز 2017ء میں کیا گیا تھا۔ حکومت پاکستان کا دعویٰ ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل سے ملک میں انٹرنیٹ کی رفتارمیں قابل ذکر تیزی آئے گی اور اس کی مدد سے  انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن کے دیگر منصوبوں کو بھی فروغ ملے گا۔

تاہم ڈیجیٹل حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے کارکنوں نے اس منصوبے کے حوالے سے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے ذریعے پاکستان میں چین کے ماڈل کی طرز پر سنسر شپ کے نئے طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں۔

شہزاد احمد کے مطابق، ''خفیہ پرتوں میں لپٹا یہ منصوبہ پاکستان میں شخصی آزادیوں کی پہلے سے مخدوش صورت حال کے لیے مزید تباہ کن ہو سکتا ہے۔‘‘

پاکستان کے شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان میں فوج کا ایک ذیلی ادارہ اسپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن (ایس سی او) فون اور انٹرنیٹ کی سہولیات مہیا کرتا ہے۔ ایس سی او ملک کے دیگر حصوں میں بھی آزادانہ تجارتی سرگرمیوں کی انجام دہی کے لیے لائسنس کے حصول کی کوششوں میں ہے۔ تاہم ڈیجیٹل حقوق کے ماہرین کے مطابق اگر ایسا ہو جاتا ہے، تو اس سے اظہار رائے کی آزادی پر مزید قدغنیں لگ سکتی ہیں۔

ماہرین کیا کہتےہیں؟ 

صوفیہ حسنین: بانی اور سربراہ لِنکڈ تِھنگز

Sophia Hasnain
تصویر: DW/Q. Zaman

پاکستان میں انٹرنیٹ کی بندش اور اس پر حکومتی پابندیاں ایک حقیقت ہیں۔ نجی کمپنیوں کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں میں کام کرنے کی اجازت نہیں۔ قومی سلامتی کے نام پر ان کمپنیوں کو ان علاقوں میں تجارتی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لینے دیا جا رہا۔ صرف ایس سی او کو ہی ان علاقوں میں کام کرنے کی اجازت ہے جو انٹرنیٹ تک آزادانہ رسائی کے راستے میں ایک رکاوٹ ہے۔

شہزاد احمد: ڈائریکٹر بائٹس فار آل، پاکستان

Shazad Ahmed,
تصویر: DW/Q. Zaman

پاکستان میں ایک مربوط ڈیجیٹل برادری کی تشکیل اور معیشت کی بہتری کے لیے نجی ٹیلی مواصلاتی کمپنیوں اور حکومت کو ابھی مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر انہیں صارفین یعنی عام شہریوں کو اس ڈیجیٹل دور میں کسی بھی غلط اور جھوٹ پر مبنی مہم کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے انتہائی احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔

سعد حامد: ڈیجیٹل ایکو سسٹمز بلڈر

Saad Hamid
تصویر: privat

پاکستان میں عوامی انٹرنیٹ کیفے کا رجحان نہیں۔ زیادہ تر لوگوں میں موبائل انٹرنیٹ کے استعمال کا رجحان پایا جاتا ہے۔ شہری آبادی کسی حد تک اس کی استطاعت رکھتی ہے تاہم تمام شہریوں کو انٹرنیٹ کی سہولت مہیا کرنے کے لیےحکومت کو مفت وائی فائی زون اور شہروں میں منصوبے شروع کرنے کی ضرورت ہے۔

سفارشات

انٹرنیٹ کی بندش کا خاتمہ

حکومت اور انٹرنیٹ سروسز فراہم کرنے والی کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ ملک میں انٹرنیٹ کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنائیں۔ شہزاد احمد کے مطابق، ''موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس کی فراہمی میں تعطل عوام میں مزید بے یقینی اور بے چینی پھیلانے کا باعث بنتا ہے، اس لیے اس سے گریز کیا جانا چاہیے۔‘‘ ان کے بقول، ''انسانی حقوق سے متعلق ریلیوں کے دوران ان سہولیات کی معطلی اظہار رائے کی شخصی آزادیوں پر قدغن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کی جانب سے ان سروسز کو معطل نہیں کیا جانا چاہیے۔‘‘

دیہی علاقوں میں بھی رسائی 

صوفیہ حسنین کے مطابق دیہی اور شہری علاقوں کے درمیان انٹرنیٹ کی فراہمی میں پایا جانے والا خلا پر کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جانا چاہییں۔ وہ کہتی ہیں، ''اس خلا کو ختم کرنا ہی سماجی اور اقتصادی بنیادوں پر ایک منصفانہ معاشرے کے قیام کی سمت پہلا قدم ہو گا۔‘‘

ٹیکسوں کے نفاذ میں کمی

حکومت ایسی پالیسیاں تشکیل دے، جن کی مدد سے موبائل فون کمپنیاں اور دیگر متعلقہ ادارے اپنے اپنے نیٹ ورکس کو وسعت دینے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون بھی کر سکیں۔ صوفیہ حسنین کے مطابق، ''حکومت کو ایک ہی سروس پر دوہرے ٹیکس عائد کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔‘‘

 ڈیجیٹل معیشت میں سرمایہ کاری

سعد حامد کہتے ہیں، ''حکومت کو علاقائی طور پر ہمسایہ ممالک کی مثالیں سامنے رکھتے ہوئے آن لائن تجارت کے فروغ کے لیے ایسے اقدامات کرنا چاہییں، جو بالآخر انتہائی سست رفتار ملکی معیشت کو بہتر بنانے کے عمل میں مددگار ثابت ہوں گے۔‘‘

#بولو بھی بیرومیٹر ڈی ڈبلیو اکیڈیمی کا ایک پروجیکٹ ہے، جس میں ڈیجیٹل شراکت داری، آزادی اظہار اور معلومات تک رسائی کے درمیان ربط کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ مزید معلومات کے لیے:  www.dw.com/barometer