1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دونوں کوریاؤں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی

23 نومبر 2010

جنوبی اور شمالی کوریا کے مابین فائرنگ کے شدید تبادلے کے بعد دونوں کوریائی ریاستوں کے درمیان غیر معمولی کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/QFx5
جنوبی کوریا کے جزیرے میں سوگ کا سماںتصویر: AP

شمالی کوریا نے کہا ہے کہ جنوبی کوریا نے پہلے شیلنگ کی، جس کے جواب میں اُسے فوجی کارروائی کرنا پڑی۔ شمالی کوریا کے حکومتی ترجمان نے نیوز ایجنسی KCNA کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا ’ ہمارے انتباہ کے باوجود جنوبی کوریا نے مقامی وقت کے مطابق صبح ایک بجے سے گولہ باری کا سلسلہ شروع کیا اور درجنوں شیلز داغے۔ اس کے جواب میں ہم نے فوری طور پر سخت فوجی ایکشن لیا۔

اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ان دوطرفہ جھڑپوں میں شمالی کوریا کو بھی کسی قسم کا کوئی نقصان پہنچا ہے۔ قبل ازیں جنوبی کوریا نے کہا تھا کہ شمالی کوریا کی فوج نے متنازعہ سرحد کے نزدیک واقع ایک جزیرے پر تقریباً دو سو گولے داغے، جس کے نتیجے میں متعدد مکانات کو آگ لگ گئی اور دو فوجی ہلاک جبکہ متعدد شہری زخمی ہوئے ہیں۔ یون پایونگ نامی اس جزیرے سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق وہاں دور دور تک گہرے دھوئیں کے بادل دکھائی دے رہے ہیں۔

دریں اثناء وائٹ ہاؤس کی طرف سے جنوبی کوریا پر شمالی کوریائی حملے کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان رابرٹ گبس نے ایک بیان میں کہا، ’امریکہ شمالی کوریا سے فوری طور پر ان جنگی کارروائیوں کو روکنے اور التوائے جنگ کے معاہدے کے احترام کا مطالبہ کرتا ہے‘۔ گبس کا بیان دونوں کوریائی ریاستوں کے مابین جھڑپوں کے چند گھنٹوں بعد ہی سامنے آیا، جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ واشنگٹن انتظامیہ جزیرہ نما کوریا میں سرحدی تنازعے اور بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کس حد تک سنجیدگی سے لیتی ہے۔ وائٹ ہاؤس کی طرف سے یقین دلایا گیا ہے کہ امریکہ اپنے حلیف ملک جنوبی کوریا کی حفاظت اور علاقے میں امن و استحکام کے لئے ممکنہ معاونت کرے گا اور اسے اپنی اہم ذمہ داری سمجھتا ہے۔

Südkorea Insel Yeonpyeong Konflikt mit Nordkorea Flash-Galerie
جنوبی کوریائی صدر لی میونگ بک ایک ہنگامی اجلاس کی سربراہی کر رہے ہیں، جس میں ملکی وزیر دفاع کم ٹائی یونگ بھی شامل ہیںتصویر: AP

اُدھر شمالی کوریا کے چند حلیفوں میں سے ایک نے بھی کہا ہے کہ اُسے دونوں کوریاؤں کے مابین ہونے والی ان چھڑپوں پر گہری تشویش ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان ’ہونگ لی‘ نے اپنے بیان میں کہا کہ بیجینگ حکومت امید کرتی ہے کہ دونوں ریاستیں علاقے میں امن و استحکام کے لئے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اقدامات کریں گی‘۔ چین نے شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کے تنازعے کے حل کےلئے چھ فریقی مذاکرات پر زور دیا ہے۔

روس کی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ شمالی اور جنوبی کوریا کے مابین تنازعہ بڑھنا نہیں چاہئے۔ کرملن نے فریقین سے دور اندیشی سے کام لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ دونوں کوریاؤں کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر روس چند ماہ پہلے ہی شمالی کوریا کے نزدیک اپنی سرحدوں پر فوجی تعیناتی میں اضافہ کر چکا ہے۔ جبکہ شمالی کوریا کے ساتھ غیر دوستانہ تعلق رکھنے والے ملک جاپان کے وزیر اعظم ’ناؤٹو کان‘ نے اپنی حکومت کو ہر طرح کے حالات سے نمٹنے کے لئے تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔ انہوں نے کہا ’ میں نے انہیں دو تجاویز دی ہیں: ایک یہ کہ وہ اس تنازعے سے متعلق معلومات کے حصول کے لئے تمام تر کوششوں کریں دوسرے یہ کہ غیر یقینی حالات کے مقابلے کے لئے تیا رہیں‘۔

جرمنی میں بھی جزیرہ نماءِ کوریا میں پائی جانے والی کشیدگی پر گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے کہا ہے کہ شمالی کوریا کی طرف سے جنوبی کوریا پر گولے داغنے کا عمل محض اشتعال انگیزی ہے۔ اس سے خطے کے امن کو نقصان پہنچے گا۔ ویسٹر ویلے نے جنوبی کوریا کے صدر کی تعاریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حالات کو قابو میں رکھنے کی ممکنہ کوششیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے شمالی کوریائی عوام اور حکومت کو اس کٹھن وقت میں جرمنی کی طرف سے مکمل حمایت اور تعاون کا یقین دلایا ہے۔

جرمنی کے ایک تھنک ٹینک SWP سے وابستہ شمال مشرقی ایشیائی سیاست کے ماہر ڈاکٹر مارکوس ٹی ٹن کا کہنا ہے ’شمالی کوریا کی طرف سے اشتعال انگیزی کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے۔ پیونگ یانگ کی ان کارروائیوں میں چھپا پیغام دراصل یہ ہے کہ ہم ایک مضبوط ایٹمی طاقت ہیں اور ہم خود کو اور منوانا چاہتے ہیں‘۔

اس سوال کے جواب میں کہ آیا شمالی کوریا سے خطے کو سنگین خطرات لاحق ہیں، ڈاکٹر مارکوس ٹی ٹن کا کہنا تھا ’ یہ سمجھنا کسی حد تک مبالغہ آرائی ہوگی۔ کیونکہ جنوبی کوریا ایک مضبوط عسکری طاقت ہے، جہاں مستقل بنیادوں پر 30 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں اور خود سیول کی فوج سات لاکھ سپاہیوں پر مشتمل ہے‘۔

معاملہ شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کا ہے، جس کے بارے میں دنیا کی بڑی طاقتوں کو خطرہ ہے کہ شمالی کوریا یورینیم کی افزودگی کے ذریعے جوہری ہتھیار سازی کا ارادہ رکھتا ہے۔ شمالی کوریا ایک سال سے تعطل کے شکار چلے آ رہے چھ فریقی مذاکرات کی میز پر لوٹنے کے لئے تیار نہیں ہو رہاجو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔

Südkorea Insel Yeonpyeong Beschuss durch Nordkorea
جنوبی کوریائی جزیرے یون پایونگ میں شمالی کوریائی گولہ باری کے نتیجے میں جلے ہوئے گھر نظر آ رہے ہیںتصویر: AP

اُدھر سیول نے پیونگ یانگ کو دھمکی دی ہے کہ کسی مزید حملے صورت دونوں کوریاؤں کے مابین جھڑپوں کے بعد سے جنوبی کوریا کی فوج کو انتہائی چوکنا کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ شب ہونے والی جھڑپوں میں جنوبی کوریائی فوجیوں کی ہلاکت کا اعلان کرتے ہوئے سیول فوج کے جنرل ’لی ہونگ کی‘ نے اپنی بریفنگ میں بتایا کہ ان کے مزید پانچ فوجی توپخانے کی گولہ باری کے نتیجے میں شدید زخمی ہوئے ہیں جبکہ دس فوجیوں کو معمولی چوٹیں آئی ہیں۔

جنوبی کوریا کی طرف سے سامنے آنے والے صدارتی بیان میں اس واقعے کو ’ کھلی فوجی اشتعال انگیزی‘ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ شمالی کوریا کی طرف سے گولے داغنے اور شہریوں کو نشانہ بنانے کا غیر دانشمندانہ عمل ناقابل معافی ہے۔

یاد رہے کہ شمالی اور جنوبی کوریا کے مابین مسلح جھڑپیں عین ایسے وقت ہوئی ہیں، جب شمالی کوریا کے ایک ایٹمی پلانٹ کے انکشاف کے بعد جنوبی کوریا سمیت عالمی برادری کی طرف سے شمالی کوریا کے جوہری ہتھیار سازی کے ممکنہ ارادوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: امجد علی