1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنیا کی سب سے قیمتی و حسین چیز وقت ہے

رابعہ الرَباء
5 جون 2021

دنیا کی سب سے قیمتی و حسین چیز وقت ہے مگر اس کا احساس ہمیں تب ہوتا ہے جب وقت گزر جاتا ہے۔ یہ الگ بات کہ سرمایا دارانہ نظام نے وقت کا جو نظریہ ہمارے ذہنوں میں بیٹھا دیا ہے اس سے چھٹکارہ مستقبل قریب تک تو ممکن نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/3uSsy
DW Urdu Blogerin Rabia Al raba
تصویر: privat

وقت کے قیمتی ہونے کا احساس تو ہمیں تھا مگر جب ہماری دوست تحریم عظیم نے ہمیں بتایا کہ چین میں آپ کسی مال میں شاپنگ کے لیے جائیں تو ہماری طرح سارا مال گھومنا نہیں پڑتا بلکہ مال کے باہر لسٹ لگی ہوتی ہے کہ کس فلور پہ کیا چیز دستیاب ہے، آپ اس کے مطابق سیدھا اسی فلور پہ جاتے ہیں اور اپنی مطلوبہ چیز خریدتے ہیں اور لوٹ آتے ہیں۔ بلکہ مارکیٹ جاکر شاپنگ کرنے کے بجائے سستی آن لائن شاپنگ پڑتی ہے۔

اب ایسی قوموں کو ترقی کا پورا حق ہے، جنہوں نے وقت کی اہمیت کو پہچان لیا ہے اور اس کے استعمال کو بھی سیکھ لیا ہے۔ اگر ہم اپنا موازنہ ترقی یافتہ ممالک سے کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے تو ہمیں وقت کی اہمیت کو سمجھنا ہو گا اوراسے استعمال کرنا سیکھنا ہو گا۔

چین میں کورونا سب سے پہلے آیا اور چین نے اسے اپنے طریقہ کار اور قوانین کے مطابق سب سے پہلے کنٹرول کیا۔ چین نے یہ نہیں دیکھا کہ امریکا کیا قانون بنا رہا ہے یا یورپ کیا کر رہا ہے۔ اس نے اپنے زمینی حقائق پہ نظر رکھتے ہوتے اپنے وسائل کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اس بھیانک وبا کو محدود وقت کے اندر کنٹرول کر لیا اوراس کی فتح کا جشن جس عاجزی سے منایا وہ اتنا خوش آئند تھا کہ آنکھیں نم ہو گئیں۔

قدرت بھی وقت کا ساتھ دینے والوں کا ساتھ دے رہی ہوتی ہے۔ ہمارا رویہ یکسر مختلف ہے۔ وقت کو تو ہم اپنا غلام سمجھتے ہیں کہ جب چاہیں گے اس سے استفادہ کر لیں گے مگر وقت نہ کبھی کسی کا ہوا ہے نہ ہو گا۔

یہ بھی پڑھیے: معصوم بچیوں کا ریپ اور ہمارا سماجی رویہ

ہم بے شمار دولت اکٹھی کرتے رہیں کہ ہم کسی خاص عمر میں دنیا گھومیں گے لیکن اس خاص عمر میں صحت سفر کا ساتھ نہ دے تو ساری عمر کی ریاضت بے کار ہو جاتی ہے۔ گویا سیاحت کو بھی عمر کے ایک خاص حصے میں انجوائے کر لینا چاہیے۔ جو ہے، جتنا ہے میں زندگی تلاش کرنی چاہیے۔ نہیں معلوم کہ کسی قدرتی آفت سے یہ سب بھی رہے یا نہ رہے ۔

جمود انسان سے رونق زیست چھین لیتا ہے۔ اس لیے جونہی وقت میسر ہو اس جمود کو حرکت میں بدل کر زندگی کو پھر سے جوان کر لیں۔

شہروں میں طویل سفر اور ٹریفک جیم بے شک ہو  لیکن ہمیں کسی دور کے بڑے سے مال میں شاپنگ کرنا ہوتی ہے تاکہ ہم دوسروں کو متاثر کر سکیں۔ بہانہ یہ ہوتا ہے کہ وہاں سستی اشیاء دستیاب ہیں تو جو پیٹرول اور وقت آپ نے ضائع کیا ہے اس کی قمیت کیا ہو گی؟ اور جس فضائی آلودگی میں آپ نے اپنا حصہ ڈالا ہے وہ بھی آپ شمار نہیں کر رہے۔

پاکستان میں بھی اب آن لائن شاپنگ سستا ذریعہ ہے۔ بس آپ کو طریقہ کار سے شناسائی ہونا چاہیے۔ یوں آپ وقت بھی بچا سکتے ہیں اور پیسے بھی، ماحول بھی۔

جب ہم زندگی بہت پڑی ہے سوچ لیتے ہیں اور دن رات کی تھکا دینے والی مشقت میں کسی لاحاصل ، حاصلی کی تگ و دو میں ہوتے ہیں۔ جب ہم اپنے بچوں کو اپنے عزیروں دوستوں اور رشتوں کو وقت نہیں دے رہے ہوتے ہیں بلکہ ہم تو اپنی ذات کو وقت نہیں دے رہے ہوتے۔ جب ہم آج کا کام کل پہ ڈال رہے ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: چترال کی حسین آنکھ کا پھیلتا ہوا کاجل

جب ہم اپنے خواب تعبیر کرنے کی حیثیت میں ہوتے ہوئے اسے کسی اور وقت پہ ڈال دیتے ہیں

تب اچانک ایک دن خبر ہوتی ہے کتنے وقت تھے جو ہم اس لمحے جی سکتے تھے مگر نہیں جی سکے۔ اس لمحے کو اس وقت کے مطابق گزار دیتے تو آج کچھ نیا اور منفرد کرنے کے قابل ہوتے۔

یہ ہے وقت جسے ہم سمجھ نہیں پا رہے۔ گویا وقت آج اور ابھی کے ستون پہ اپنی مضبوط عمارت اٹھاتا ہے۔

قصہ مختصر دنیا کی سب سے قیمتی شے کی قدر کرنا سکیھیں کہ ایک لمحہ بھی گزر جائے تو لوٹ کے نہیں آتا۔ وقت کو، لمحوں کو، موجود کو جینا سب سے بڑی بادشاہی ہے۔ جو اسے سیکھ جاتا ہے وہ خوشیوں کے گل کھلاتا ہے اور بہار کی مہک سے لطف لے کر زندگی حسین بنا لیتا ہے اور کچھ بن بھی جاتا ہے۔

جب ہم وقت کو جینا اور اس کو انجوائے کرنا سیکھ لیں گے، اگلی نسلیں خود بخود وقت کی اہمیت کو سمجھ لیں گی۔