1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنیا میں نصف ارب افراد بے روزگار یا جز وقتی ملازم

21 جنوری 2020

اقوام متحدہ نے ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا بھر میں 47 کروڑ سے زیادہ افراد بے روزگار ہیں یا جزوی ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں، جب کہ بہتر روزگار تک عدم رسائی عالمی سطح پر سماجی بدامنی کا باعث بن سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/3WX12
Berlin Jobcenter
تصویر: picture-alliance/W. Steinberg

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کی طرف سے مرتب کردہ سالانہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت 470 ملین افراد بے روزگار ہیں یا جز وقتی ملازمت کرتے ہیں۔ یہ تعداد عالمی لیبر فورس کا 13فیصد بنتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2010 ء کی دہائی میں عالمی سطح پر بے روزگاری کی شرح نسبتاً مستحکم تھی۔ لیکن رپورٹ میں اس بات کا اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ معیشت میں سست روی کے باعث بیروزگاری میں اضافہ ہو سکتا ہے، جس وجہ سے رواں سال بیروزگار افراد کی تعداد 18 کروڑ 80 لاکھ سے بڑھ کر 19 کروڑ 5 لاکھ ہونے کا خدشہ ہے۔

Schwerin Jobcenter
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Bockwoldt

آئی ایل او کے سربراہ گائے رائیڈر نے جنیوا میں رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا، ”کام کرنے والے کروڑوں افراد کے لیے بہتر زندگی گزارنا مسلسل مشکل ہوتا جا رہا ہے۔"

عالمی سطح پر روزگار اور سوشل آؤٹ لک سے متعلق اس سالانہ رپورٹ میں صرف بے روزگار ی پر ہی نہیں بلکہ جزوی ملازمتوں پر بھی توجہ دی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 285 ملین افراد ایسی ملازمتوں سے منسلک ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جتنا کام کرنا چاہتے ہیں انہیں اتنا کام نہیں ملتا یا انہوں نے کام کی تلاش چھوڑ دی ہے یا روزگار کی منڈی  تک ان کی رسائی نہیں ہو پا رہی۔

کیا سماجی بدامنی اور بے روزگاری میں کوئی تعلق ہے؟

سماجی بدامنی اور بے روزگاری وجز وقتی ملازمتوں کے درمیان تعلق پر اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں خصوصی زور دیا گیا ہے۔ آئی ایل او کے سربراہ گائے رائیڈر نے اس حوالے سے لبنان اور چلی میں ہونے والے بڑے عوامی مظاہروں کا حوالہ دیا۔

انہوں نے کہا، ”لیبر مارکیٹ کی صورت حال ہمارے بہت سے معاشروں میں سماجی عدم آہنگی کا سبب بن رہی ہے۔ بہتر روزگار تک عدم رسائی عالمی سطح پر احتجاجی تحریکوں کا باعث بن سکتی ہے، یہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے۔"

آئی ایل او کے'سوشل اَن ریسٹ انڈیکس یا سماجی بے چینی انڈیکس‘ کے مطابق 2009 ء سے 2019 ء کے درمیان مظاہروں اور ہڑتالوں کے باعث دنیا کے مختلف گیارہ خطوں کی صورتحال کا تجزیہ کیا گیا، جس سے واضح ہوا کہ دنیا کے ان گیارہ میں سے سات خطوں میں بے سکونی میں اضافہ ہوا ہے۔ پندرہ سے چوبیس برس کے 267 ملین نوجوانوں کی بے روزگاری، تعلیم یا تربیت سے محرومی اس کی اہم وجوہات  ہو سکتی ہیں۔ ملازمت کرنے والے بہت سے نوجوانوں کو خراب اور غیر معیاری حالات میں کام کرنا پڑتا ہے۔

رپورٹ میں اس حقیقت کا اعادہ کیا گیا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ کمانے اور سب سے کم کمانے والوں کے درمیان غیر معمولی عدم مساوات ہے۔ خواتین ملازمین کی تعداد اب بھی 47 فیصد ہے، جو مردوں کی تعداد کے مقابلے 27 فیصد کم ہے۔

آئی ایل او کے سربراہ گائے رائیڈر کہتے ہیں،''ہمیں جہاں پہنچنا چاہیے تھا ہم اب تک وہاں پہنچ نہیں سکے ہیں اور صورت حال پہلے کے مقابلے کہیں زیادہ سنگین ہے۔‘‘ رائیڈر کے مطابق کام کرنے والے کروڑوں افراد کے لیے بہتر زندگی گزارنا مشکل ہو رہا ہے۔

 

ج ا/ ع ا  (اے ایف پی، روئٹرز)