1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’دس ارب درخت‘ منصوبہ، پیسے اور وسائل کا ضیاع

4 ستمبر 2021

عمران خان حکومت کے ’ٹین بلین ٹری‘ منصوبے کی تعریف ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کی جاتی ہے، تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ غیرپائیدار منصوبہ ہے اور قیمتی وسائل کو سراسر ضیاع ہے۔

https://p.dw.com/p/3zum8
Pakistan | Billion tree tsunami
تصویر: Thomson Reuters Foundation/R. Saeed Khan

پاکستانی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ پہلے ہی ایک ارب درخت لگا چکی ہے جب کہ اس سلسلے میں 85 ہزار ملازمتوں کے مواقع پیدا کیے گئے۔ سن 2019 میں اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی مدد کے ساتھ ایک منصوبہ بنایا گیا، جس کے تحت 2023 تک پاکستان میں دس ارب درخت لگائے جانا ہیں۔

پاکستان میں شجر کاری کی ’تاریخی مہم‘ کا آغاز، باڑہ میں بدمزگی

ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے ’بلین ٹری ‘ منصوبے کی پذیرائی

آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچوں سب سے بڑا ملک ہے جب کہ اس کی 24 فیصد سے زائد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلوں کے اثرات کے حوالے سے پاکستان دنیا کے بدترین ممالک  میں سے ایک ہے۔ پاکستان کی تیزی سے بڑھتی آبادی کو وسائل کی ضرورت ہے، جب کہ ملکی وسائل تغیر کے شکار، مون سون موسم، ہمالیہ کے گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے اور شدید موسمی و قدرتی حالات بہ شمول سیلاب اور خشک سالی بڑے ملکی چیلنجز ہیں۔

دفتری اغلاط

حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس منصوبے کے ذریعے ماحولیاتی تباہی کا رخ تبدیل کیا جا سکتا ہے، تاہم ناقدین کے مطابق حقائق اس کے برخلاف ہیں۔ ماحولیاتی امور سے متعلق ماہر ڈاکٹر حسن عباس نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ دس ارب درخت لگانے کا منصوبہ دراصل بغیر باقاعدہ منصوبہ بندی کے شروع کیا گیا۔ جنگلات ایک خاص ماحول میں پرورش پاتے ہیں اور اس ماحول کی عدم موجودگی کے بغیر باقی نہیں رہتے، تاہم جڑی بوٹیاں خود سے پھل پھول سکتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کئی ایسے مقامات پر درخت لگائے گئے، جو پہلے ہی سے پانی کی شدید قلت کا شکار ہیں۔ اسی طرح پودوں کی ترسیل کا خرچ بھی عوامی جیب ہی سے نکلتا ہے۔ عباس کے مطابق، ''مسئلہ ماہرین نہیں، اصل مسئلہ اس پروجیکٹ کے نگران بیوروکریٹ ہیں، جو فوریسٹریشن اور ڈی فاریسٹریشن کا علم نہیں رکھتے۔ یہ تو شاید ان اصطلاحات ہی سے آگاہ نہ ہو، ماحولیاتی تباہی کی وجوہات کا فہم تو چھوڑ ہی دیجیے۔‘‘

پاکستان کے سابقہ انسپیکٹر جنرل آف فاریسٹریشن سید محمود ناصر بھی اس بات سے متفق ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ سب سے پہلے امپیریکل مطالعے کی ضرورت ہے کہ کہاں پانی موجود ہے اور کہاں نہیں۔ اس وقت پودوں کے لیے زیرزمین پانی نکالنا، پہلے سے دباؤ کے شکار آبی ذخائر پر اضافی بوجھ ہو گا۔

بجٹ میں شفافیت کی کمی

حکومت کا کہنا ہے کہ اس منصوبے پر قریب ایک سو پچیس ارب روپے خرچ ہوں گے، تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں دیگر اخراجات نظرانداز کیے گئے ہیں۔

ڈاکٹر حسن عباس کے مطابق خیبر پختونخوا کے صحرائی علاقے میں لگائے جانے والے ایک پودے کے لیے مجموعی طور پر پندرہ روپے کے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ''اب آپ خود اربوں درختوں کی اخراجات کا تخمینہ لگائیں۔ یہ پیسہ دریاؤں کے کناروں کی صفائی پر خرچ کیا جانا چاہیے تھا تاکہ ان کا بہتر بہاؤ ممکن بنایا جائے۔ ‘‘

محمود ناصر کہتے ہیں کہ قدرتی ماحول کا خیال رکھے بغیر اگائے جانے والے درخت نہایت مہنگے اور ماحولیاتی اعتبار سے تباہ کن اثرات کے حامل ہو سکتے ہیں، ''کیا کسی نے ایمیزون جنگل میں کبھی درخت لگایا؟ کیا ملک کے شمالی علاقوں میں حکومت نے درخت لگائے؟ قدرت کا درخت لگانے کا اپنا نظام ہے۔ آپ کو درختوں کی دیکھ بھال کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘‘

اس پروجیکٹ سے متعلقہ ایک حکومتی افسر نے ڈی ڈبلیو کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس منصوبے میں اضافی اخراجات بھی موجود ہیں۔ ''انتظامی اور دیگر اخراجات ابھی طے نہیں کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر حال ہی میں (گوجرانوالہ انتظامی علاقے میں) پچاس ہزار پودے لگانے کے لیے بارہ ہزار طلبہ کو لایا گیا۔‘‘

انہوں نے عوامی پیسے سے بنائے گئے بجٹ کی شفافیت پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس میں ٹرانسپورٹ اور دیگر اخراجات بتائے ہیں نہیں گئے۔

پودے کے منفی اثرات بھی

پودے لگانا ماحول کے لیے فائدہ مند ہے، تاہم ماہرین کے مطابق اہم امور پر غور کیے بغیر ایسا کوئی قدم منفی اثرات کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ محمود ناصر کے مطابق گھاس اور جڑی بوٹیاں چرنے والے جانوروں کو اس پروجیکٹ والے علاقے میں لانے سے روکا گیا ہے، تاہم یہی جانور اصل میں جنگلاتی آگ سے تحفظ دیتے ہیں۔ ''دنیا بھر میں جنگلاتی آگ کی وجہ جنگلوں میں چراگاہوں کا خاتمہ ہے۔‘‘

جس علاقے میں پودے لگائے گئے ہیں، وہاں چرنے والے جانوروں کے آنے پر پابندی کا مطلب ہے  مستقبل میں مزید جنگلاتی آگ کے واقعات۔ محمود ناصر کا کہنا ہے، ''یہ پروجیکٹ پانی کے قدرتی چشموں کو تباہ کرنے کا باعث بنے گا۔ اس سے پانی کی شدید قلت پیدا ہو سکتی ہے، جو زمین کی زرخیزی پر اثرانداز ہو گی۔

سمت تاہم مثبت

اس پرجیکٹ کی حمایت کرنے والے ماہرین کا تاہم تمام تر تنقید کو ردکرتے ہوئے کہنا ہے کہ پہلے سے تباہ شدہ ماحولیاتی تباہی کی بحالی میں دہائیاں لگ سکتی ہیں اور ایسے میں حکومت کے اس منصوبے کو مثبت قدم کے طور پر لیا جانا چاہیے۔

ماحولیاتی کارکن ستارہ پروین اس پروجیکٹ پر خوش ہیں۔ جرمن یونیورسٹی ہائیڈل برگ سے ڈگری حاصل کرنے والی پروین کے مطابق یہ پہلی پاکستانی حکومت ہے جس نے ماحولیات کے مسئلے کو سنجیدہ لیا ہے اور اس کے تدارک کے لیے قدم اٹھایا ہے۔

ع ت، ع ح (ایس خان)