1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قبائلی اضلاع ميں انٹرنيٹ کی عدم دستيابی، طلبا کے ليے مسئلہ

فرزانہ علی، پشاور
17 جون 2020

قبائلی علاقوں ميں انٹرنيٹ کی عدم دستيابی طلباء کے ليے بڑا مسئلہ ہے تاہم تعليمی اداروں کا کہنا ہے کہ يہ مسئلہ ان کی وجہ سے نہيں جبکہ حکام کہہ رہے ہيں کہ سکیورٹی اداروں کی منظوری کے بعد ان علاقوں ميں ٹاورز لگائے جائیں گے۔

https://p.dw.com/p/3dti6
Pakistan Tribal Youth Forum Proteste in Bajor
تصویر: DW/Farzani Ali

 

کووڈ انيس کی وبا کے باعث دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی تعلیمی اداروں کی بندش کے نتيجے ميں طلبا کا سال ضائع ہونے سے بچانے کے ليے کئی تعلیمی اداروں میں میں آن لائن کلاسز کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ لیکن بدقسمتی سے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضم شدہ قبائلی اضلاع میں تھری جی اور فور جی انٹرنیٹ کی عدم دستيابی کے باعث ان اضلاع ميں بسنے والے طلباء کو مشکلات کا سامنا ہے۔

صوبے کی کئی یونیورسٹيوں میں زیر تعلیم طلباء نے اپنے مسائل حکومت تک پہنچانے کے ليے صوبے کے مختلف اضلاع میں مظاہرے بھی کيے، جو اب بھی جاری ہيں۔ کچھ طلبا اس مسئلے کو عدالت بھی لے کر گئے، جہاں عدالت نے وفاقی حکومت کو ضم شدہ اضلاع میں انٹرنیٹ کی بحالی کے احکامات جاری کيے۔ اس کے بعد جنوبی وزیرستان کی انتظامیہ نے وانا کے علاقے چگ ملائی، موسی نیکا اور مولا سرائے میں محدود پیمانے پر کچھ انٹرنیٹ کیفوں کا انتظام بھی کیا لیکن انٹرنیٹ کے سگنل محدود ہونے کی وجہ سے جنوبی وزیرستان کے طلبا آن لائن کلاسز کے ليے دوسرے اضلاع میں رہنے پر مجبور ہیں۔

ایبٹ آباد کی ايک نجی یونیورسٹی ميں زير تعليم تین دوست ڈیرہ اسماعیل خان میں یومیہ تين ہزار روپے پر ایک کمرہ لے کر اکھٹے رہ رہے ہیں تاکہ آن لائن کلاسز لے سکیں۔ انہی میں سے ایک طالب علم فرمان اللہ نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ ہوٹل میں کھانا بھی خود بنانا پڑتا ہے کیونکہ وہ روزانہ باہر سے کھانا خريدنے کی حيثيت نہیں رکھتے۔ علاوہ ازيں وزیرستان کے ٹھنڈے علاقوں کے افراد کے ليے ڈیرہ اسماعیل خان کی گرمی میں رہنا بھی ایک مشکل کام ہے۔

تنائی کے علاقے سے تعلق رکھنے والے بلال وزیر، جو پرائیویٹ یونیورسٹی میں بی بی اے کے طالب علم ہیں، نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پہلے بھی اُن کے کافی اسائنمنٹ اور لیکچرز مس ہو گئے تھے۔ اس ليے انہوں نے سوچا کہ مزید نقصان اُٹھانے کی بجائے تین دوست اکھٹے کمرہ لے کر کام چلا لیں۔ انہی کے ایک اور دوست سردار روئف نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ ان کی یونیورسٹی والے پوچھتے ہیں، ''آپ کے علاقوں میں انٹرنیٹ کیوں نہیں۔ اب ہم ان کو کیا بتائیں کہ وہاں انٹرنیٹ کیوں نہیں ہے۔‘‘

باجوڑ کے علاقے سے تعلق رکھنے والے پرائیویٹ یونیورسٹی کے طالب علم اور ٹرائیبل یوتھ فورم کے مرکزی چیئرمین ریحان زیب نے طلبا کے ساتھ ضلع باجوڑ کے ہیڈ کواٹر خار میں قبائلی اضلاع میں تھری جی فور جی انٹر نیٹ کی بندش کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرے میں قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ سروس کی بحالی، ایچ ای سی کی پالیسيوں کے جائزے اور قبائلی اضلاع میں آن لائن کلاسز کی سہولت کی عدم موجودگی کی وجہ سے ان علاقوں کے طلباء کی پروموشن کے قوائد میں نرمی کے مطالبات شامل تھے۔

ریحان زیب نے بتایا کہ اگرچہ باجوڑ کے علاقے خار اور سالارزئی میں انٹرنیٹ سگنل ہیں لیکن وہ اس قابل نہیں کہ اس پر آن لائن کلاسز لی جا سکیں جبکہ ضلعے کے باقی حصوں میں تو یہ سہولت بھی نہیں اور باقی قبائلی اضلاع بھی تھری جی فور جی انٹر نیٹ کی سہولت سے سن 2016 سے محروم ہیں۔ ریحان زیب نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر حکومت نے اس مسئلے کا حل نہ نکالا، تو قبائلی اضلاع کے 25 ہزار طلباءکا مستقبل داﺅ پر لگ جائے گا۔

Pakistan Peschawar Coronavirus
تصویر: DW/F. Khan

مسئلہ یقیناً گمبھیر ہے لیکن کیا اعلی تعلیمی اداروں میں بیٹھے افراد کو اس کا ادراک ہے؟ اس بارے میں جاننے کے ليے ڈی ڈبلیو اردو نے پشاور یونیورسٹی کے جرنل ازم ڈپارٹمنٹ کے چیئرمین فیض اللہ جان سے بات کی، تو انہوں نے بتایا کہ ایک اندازے کے مطابق ان کی یونیورسٹی میں قبائلی اضلاع کے طالب علموں کی تعداد ہر کلاس میں چار فیصد ہے۔ اب ان کی آن لائن کلاسز سے محرومی یقیناً قابل تشویش ہے لیکن یہ پالیسی یونیورسٹیسز نے نہیں بنائی اس ليے وہ قصور وار ہر گز نہیں۔

فیض اللہ جان نے بتایا کہ انہوں نے کورونا وائرس کے دوران کلاسز کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے لیکن قبائلی اضلاع اور چترال کے طالب علم اس میں حصہ نہیں لے پا رہے ۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دنوں ایک کلاس کے دوران ایک طالب علم نے بتایا کی وہ کہیں روڈ پر کھڑے ہو کر کلاس لے رہا ہے کیونکہ یہاں سگنلز اچھے آتے ہیں۔ اب کوئی کتنی دیر روڈ پر اس گرمی میں کھڑا رہ سکتا ہے۔ فیض اللہ جان کا کہنا تھا کہ ان کے ڈپارٹمنٹ کے اساتذہ ایسے طلبا کے ليے لیکچرز محفوظ کر لیتے ہیں تاکہ وہ کسی ایک وقت میں کہیں جاکر اپنے ای میل کے ذریعے اُسے حاصل کر سکیں۔

وزارت داخلہ سے جب اس اہم مسئلے پر رائے مانگی گئی، تو ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سکیورٹی اداروں کی منظوری کے بعد وہاں ٹاورز لگائے جائیں گے۔ پہلے بھی کچھ ٹاورز لگائے گئے تھے جو کے شر پسندوں نے تباہ کر دیے۔ اور جب ڈی ڈبلیو نے پوچھا کہ جہاں ٹاورز ہیں وہاں کا کیا، تو دوسری طرف خاموشی ہی ملی۔