1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خیبر پختونخوا میں مشتعل ہجوم نے ہندوؤں کے مندر کو آگ لگا دی

31 دسمبر 2020

پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا میں مشتعل مسلمانوں کے ایک ہجوم نے ہندوؤں کے ایک مندر میں نہ صرف توڑ پھوڑ کی بلکہ اسے آگ بھی لگا دی۔ حکام نے اس افسوس ناک واقعے میں اشتعال انگیزی کا الزام مقامی مذہبی شخصیات پر عائد کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3nOny
Pakistan Hyderabad Hindu Tempel
تصویر: Jan Ali Laghari/Pacific Press/picture alliance

پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا میں حکام نے بتایا کہ اس مشتعل ہجوم نے بدھ 30 دسمبر کو کرک میں واقع ایک پرانے مندر میں نہ صرف توڑ پھوڑ کی بلکہ اسے آگ بھی لگا دی۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں بہت سے افراد کو اس مندر کو توڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جبکہ اس عمارت سے دھواں بھی اٹھتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت کرتے ہوئے مقامی پولیس افسر رحمت اللہ وزیر نے بتایا کہ چند مقامی مسلم مذہبی شخصیات نے مبینہ طور پر اس مندر میں جاری توسیعی کام کے خلاف پر امن مظاہرہ کرنے کی بات کہی تھی۔ تاہم اس پولیس افسر کے بقول اس مظاہرے کے دوران وہاں موجود مظاہرین کے مذہبی قائدین نے جب اشتعال انگیز تقریریں کیں، تو ہجوم نے مشتعل ہو کر اس مندر کو آگ لگا دی۔

پاکستان کی انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے ٹوئٹر پر اس واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے صوبائی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اس واقعے کے ذمے دار افراد کو ان کے کیے کی سزا ملے۔ شیریں مزاری نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ’’حکومت کی حیثیت سے تمام شہریوں اور ان کی عبادت گاہوں کا تحفظ اور ہر شہری کی سلامتی کو یقینی بنانا ہماری اہم ترین ذمے داری ہے۔‘‘

اسی دوران ضلعی پولیس کے سربراہ عرفان اللہ خان نے جمعرات اکتیس دسمبر کے روز روئٹرز کو بتایا کہ اب تک اس حملے کے سلسلے میں نو مبینہ ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

کیا اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کی عبادت گاہ نہیں بن سکتی؟

یہ مندر گزشتہ صدی کے اوائل میں پہلے ایک سمادھی کے طور پر تعمیر کیا گيا تھا۔ وہاں 1997ء میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی تھی۔ اسی لیے پاکستانی سپریم کورٹ نے 2015ء میں اس کی دوبارہ تعمیر کا حکم دے دیا تھا۔

پاکستان ہندو کونسل کے سربراہ اور حکمراں جماعت کے رکن اسمبلی رمیش کمار نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے بات چيت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس قابل مذمت واقعے کے خلاف احتجاج کریں گے۔ ان کا کہنا تھا، ’’ہم اپنے مندر پر حملے کے خلاف سپریم کورٹ کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کریں گے، جو پاکستان میں ہندوؤں کے چار بڑے مقدس مذہبی مقامات میں سے ایک ہے۔‘‘

ہندوؤں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے کارکن کپل دیو کا کہنا تھا، ’’یہ اس طرح کا کوئی پہلا حملہ نہیں ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران مذہبی اقلیتوں کے خلاف عدم برداشت میں مزید اضافہ ہوا ہے اور ان کی عبادت گاہوں پر حملے بڑھ چکے ہیں۔‘‘

مسلم اکثریتی آبادی والے ملک پاکستان میں ہندوؤں کی مجموعی آبادی تقریباﹰ 80 لاکھ ہے، جن میں سے بیشتر صوبہ سندھ میں رہتے ہیں۔

رواں برس جولائی میں پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں زیر تعمیر ایک مندر پر بھی حملہ ہوا تھا۔ اس حملے کے تناظر میں ہی انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستانی حکومت سے مندروں کی تعمیر اور تشویش کی شکار مقامی ہندو برادری کے مذہبی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔

ص ز / م م (اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

پاکستان میں ہزار سال پرانا مندر دوبارہ کھول دیا گیا

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں