1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خیبر پختونخوا، فاٹا میں دہشتگردی: قریب ڈیڑھ لاکھ افراد معذور

فریداللہ خان، پشاور
21 مئی 2018

پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک ہزاروں افراد ہلاک اور ہزارہا دیگر بم دھماکوں، بارودی سرنگوں اور خود کش حملوں میں معذور ہوکر بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2y4TL
تصویر: DW/F. Khan

اگر چہ پاکستانی قبائلی علاقوں کی انتظامیہ کے پاس دہشت گردی کے باعث اور اس کے خلاف جنگ کے دوران معذور ہو جانے والے شہریوں سے متعلق کوئی باقاعدہ اعداد و شمار نہیں ہیں تاہم خیبر پختونخوا حکومت کا محکمہ سماجی بہبود اب تک صوبے میں ایسے ایک لاکھ انتالیس ہزار افراد کی رجسٹریشن کر چکا ہے، جو دہشت گردی کے دوران عمر بھر کے لیے معذوری کا شکار ہو گئے۔ معذوری کا شکار ہو جانے والے فاٹا کے شہریوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

پشتون تحفط موومنٹ کے ساتھ باقاعدہ مذاکرات کا آغاز

پاکستان کی قریب 98 فیصد آبادی کو ملیریا کے خطرے کا سامنا

ان شہریوں میں مرد، خواتین اور بچے سبھی شامل ہیں۔ اس صوبائی محکمے کے اعلیٰ اہلکاروں کا کہنا ہے کہ معذور افراد کی رجسٹریشن کا بنیادی مقصد ایسے متاثرین کی مدد کرنا اور انہیں معاشرے میں دوبارہ فعال کردار کا حامل بنانے کے لیے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دینا ہے۔ پشاور میں صوبائی حکومت نے تمام صوبائی محکموں میں معذرو افراد کے لیے ملازمتوں میں ایک کوٹہ مختص کیا ہوا ہے اور رجسٹرڈ معذور افراد ایسی ملازمتوں کے لیے درخواستیں دے سکتے ہیں۔

Protesen in Pakistan für Opfer von Krieg und Terrorismus
تصویر: DW/F. Khan

دوسری جانب بم دھماکو ں میں اپنے مختلف جسمانی اعضاء سے محروم ہ جانے والے شہریوں کے لیے سرکاری سطح پر کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے، جو انہیں مصنوعی اعضاء فراہم کر سکے۔ نجی شعبے میں اس طرح کے علاج اور بحالی پر جتنے اخراجات اٹھتے ہیں، وہ کسی عام شہری کے بس کی بات نہیں ہیں۔

خیبر پختونخوا صوبائی اسمبلی: خواتین کے لیے کیا بدلا ہے؟

ایسے میں پشاور میں قائم ایک فلاحی ادارہ ان معذور شہریوں کو مصنوعی ہاتھ، بازو، ٹانگیں اور پاؤں فراہم کر رہا ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پروستھیٹک اینڈ آرتھوپیڈک سائنس عالمی ادارہ صحت، جرمن حکومت اور انٹرنیشنل ریڈ کراس کمیٹی کی مالی معاونت سے معذور افراد کے لیے مصنوعی اعضاء تیار کرنے اور انہیں لگانے میں مصروف ہے۔

ڈوئچے ویلے نے پی پاس نامی اس ادارے کے مینیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر عمر ایوب سے اس حوالے سے بات چیت کی، تو ان کا کہنا تھا، ’’پی پاس (PIPOS) نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ فاٹا، گلگت اور افغانستان سے آنے والے معذور افراد کو بھی علاج کی سہولت فراہم کر رہا ہے۔ بائیس ہزار افراد ہمارے پاس رجسٹرڈ ہیں۔ اس وقت تین ہزار افراد مصنوعی اعضاء کے لیے ویٹنگ لسٹ پر ہیں۔ ہم سالانہ چھ ہزار افراد کو مصنوعی اعضاء لگا سکتے ہیں۔‘‘

Protesen in Pakistan für Opfer von Krieg und Terrorismus
تصویر: DW/F. Khan
Protesen in Pakistan für Opfer von Krieg und Terrorismus
تصویر: DW/F. Khan

ان کا مزید کہا تھا کہ ایک شخص کو مصنوعی اعضاء لگانے میں ایک ماہ سے زیادہ عرصہ لگتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمارے پاس وسائل کم ہیں اور مریضوں اور ضرورت مندوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں سے تین سو طلبا و طالبات نے گریجویشن کی ہے۔ اگر حکومت بڑے ہسپتالوں میں یہی سہولت فراہم کرنا شروع کر دے، تو کئی مسائل جلد حل ہو سکتے ہیں۔‘‘

خیبر پختونخوا میں معذور بچوں کے لیے آن لائن تعلیم

خيبر ايجنسی ميں غاروں ميں رہائش آج بھی ايک حقيقت

پی پاس کے پاس روازنہ پچاس کے قریب افراد آتے ہیں، جنہیں مناسب مشورے دیے جاتے ہیں۔ مصنوعی اعضاء مکمل طور پر فٹ ہوں، اس کے لیے کئی ہفتے درکار ہوتے ہیں۔ اس ادارے میں آنے والوں میں مہمند ایجنسی کا امیر عالم بھی شامل تھا، جس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’چھ سال قبل ایک بم دھماکے میں میرا ایک پاؤں ضائع ہو گیا۔ سرکاری ہسپتال میں علاج کے بعد مجھے وہاں سے رخصت کیا گیا تو پھر دو سال تک میں اپنے گھر پر ہی پڑا رہا۔ پھر کسی نے مجھے پی پاس جانے کا مشورہ دیا۔ یہاں میں نے اپنی رجسٹریشن کرائی کیونکہ کسی نجی ہسپتال میں مصنوعی پاؤں لگوانے کا خرچ میں برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ یہاں انہوں نے میری مدد کی۔ اگرچہ اب بھی معمولی تکلیف ہے تاہم اس ادارے نے چلنے پھرنے میں میری مدد تو کی۔ اب میں مطمئن ہوں کہ ایک نہ ایک دن میری یہ معمولی تکلف بھی ختم ہو ہی جائے گی۔‘‘

اس ادارے سے اب تک تین سو طلبا و طالبات اپنی گریجویشن مکمل کر چکے ہیں۔ اس ادارے کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر لیاقت علی کہتے ہیں، ’’خیبر پختونخوا کے کسی ہسپتال میں معذوروں کے علاج یا انہیں مصنوعی اعضاء کی فراہمی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ یہاں سے لوگوں نے گریجویشن کی ہے۔ کئی مقامی سطح پر روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے بیرون ملک چلے گئے۔ ہمارے یہاں اس ادارے میں بھی زیادہ تر لوگ ملازمتوں کے معاہدوں کے تحت کام کرتے ہیں، جن کا کوئی دیرپا مستقبل نہیں ہوتا۔ حکومت کو اس طرح کے ادارے سے مکمل تعاون کرنا چاہیے تاکہ یہ عوام کو آئندہ زیادہ بھرپور انداز میں سہولیات فراہم کر سکے۔‘‘

خیبرپختونخوا، حکمرانی کے لیے ایک مشکل صوبہ

مشال خان قتل: پچیس ملزمان کی سزائے قید معطل، ضمانت پر رہائی

پاکستان میں قریب تین عشروں پر محیط دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ میں جہاں ایک محتاط اندازے کے مطابق بھی لاکھوں افراد جسمانی طور پر متاثر یا معذور ہوئے ہیں، وہاں ایک بہت بڑی تعداد میں مرد اور خواتین نفسیاتی مسائل کا شکار بھی ہو چکے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے سماجی بہبود کے محکمے کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں اکیس ہزار سے زیادہ خواتین و حضرات ڈپریشن کا شکار ہیں جبکہ دہشت گردوں کی طرف سے کیے گئے بم دھماکوں کی وجہ سے اپنی سماعت کی اہلیت سے محروم ہو جانے والے افراد کی تعداد بھی تیس ہزار سے زیادہ بنتی ہے۔