1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خوبصورتی سے خائف سیانے اور بچوں کی مرتی انفرادیت

23 مئی 2021

ہم میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ وہ منفرد ہے تو ایسا نظر بھی آئے۔ اس خواہش کی تکمیل میں ہم الگ انداز کے لباس، بالوں کی تراش خراش، رواج کے مطابق میک اپ اور دیگر لوازمات پورا کرنے میں لگے رہتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3tpP3
Shumaila Hussain | DW Urdu Blogerin
تصویر: Privat

زندگی کے مختلف شعبے بھی اسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے چنے جاتے ہیں۔ لیکن اس دوران ایک چیز جو مجھے شدت سے محسوس ہوتی ہے، وہ یہ کہ ہم سے کسی کی انفرادیت برداشت نہیں ہوتی۔  ہم خود جوان رہنا چاہتے ہیں لیکن کسی جوان کی جوانی سے خائف بھی رہتے ہیں۔ ہمیں خوبصورت ہونا اور لگنا پسند ہے لیکن ہم زیادہ تر کسی دوسرے خوبصورت انسان کو سہنے کی تاب بھی نہیں رکھتے۔

دوسری طرف محبت، پیار اور نگہداشت کے نام پر ہم اپنے ہی بچوں کو فنا کر دیتے ہیں۔ چار بہنیں ہیں تو ان کے لیے ایک جیسے جوڑے، تین بھائی ہیں تو ایک ہی تھان کے چار کُرتے، جن میں سے ایک باپ نے بھی پہننا ہوتا ہے۔ غربت ایک الگ معاملہ ہے لیکن جہاں افلاس وجہ نہ ہو وہاں ماں باپ سمجھتے ہیں کہ اس طرح ہم اولاد سے برابر سلوک کر رہے ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ اس طرح بچے یہ سمجھیں گے کہ سب بہن بھائیوں کو برابر سمجھا جا رہا ہے۔ برتری کا کوئی احساس کسی میں نہیں ہو گا، نہ کوئی کمتر محسوس کرے گا۔

اس کوشش میں ہم اپنے ہی بچوں کی انفرادیت سے آنکھیں بند کر کے انہیں خود ان کی صلاحیتوں اور توانائیوں سے بے خبر رکھنے کی کوشش میں سرکس کے شیر بنا دیتے ہیں۔

جوانی ہے تو پھول کی مہک کی طرح چھپی کیسے رہے گی؟ صلاحیت ہے تو پانی کی طرح اپنا راستہ کیوں نہ ڈھونڈ لے گی! لیکن ہم اتنے خوفزدہ ہوتے ہیں کہ اخلاقیات کے نام پر، کبھی معاشرت کے نام پر تو کبھی رسموں کے نام پر اس ہمکتی ہوئی معصومیت کو دبانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ بچپن سے لڑکپن اور پھر بلوغت میں جاتی ہوئی اولاد کو بچپن سے سیدھا پچپن کی سیانف سکھانے کی کوشش میں ہلکان ہوتے رہتے ہیں۔

عدم تحفظ کا شکار ہم ہیں اور پردوں میں چھپا کر رکھنا چاہتے ہیں اپنی اولاد کو۔ ہم جنسی خواہشات کے پیدا ہونے اور ان کے وجود سے منکر خود ہیں لیکن اپنی اگلی نسلوں کو اپنے ڈر  وراثت میں پہنچانے کے سلسلے میں اس جذبے سے اتنا ڈرا دیں گے کہ وہ سوچیں بھی تو صرف غلاظت اور خوف کو ہی جنم دیں۔

مغربی افریقی معاشروں میں تو جوان ہوتی لڑکیوں کا ختنہ بھی اس لیے کر دیا جاتا ہے کہ کہیں وہ اپنی خواہش کی منہ زوری کے سبب بغاوت کا استعارہ نہ بن جائیں۔ سوال یہ ہے کہ اس رسم پر دنیا بھر میں اتنا شور اٹھنے کے باوجود آج تک کیوں اسے بالکل ختم نہیں کیا جا سکا؟

دنیا میں کچھ بہت ہی پس ماندہ قبائل ایسے بھی ہیں، جہاں خواتین کے سینے کی اٹھان سے خائف لوگ 'پستان کی گوٹی‘ مارنے جیسی رسم ادا کرتے ہیں۔ اس رسم میں افریقی قبیلوں کے رواج سے ملتا جلتا عمل دہرایا جاتا ہے اور چھاتیوں کو کسی عمل کے تحت ہمیشہ کے لیے دبا دیا جاتا ہے۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی بیٹیوں کے اندام نہانی پر قفل لگانے کی رسم بھی ایسی ہی کسی خواہش کا نتیجہ ہے۔ یہ رسم باقاعدہ موجود ہے، یقین نہیں آتا؟ چشم دید گواہ میری ایک دوست ہیں، جو ایسے ایک علاقے میں تعینات رہیں۔

پاکستان میں بھی کچھ ایسے گھرانے ہیں، جہاں لڑکی اگر صبح ہوتے ہی نہا لے تو اس بات پر اس سے باز پرس کی جاتی ہے اور اسے بے حیائی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ تو یہ سب رویے بنیادی طور پر انسان کی اسی جبلت کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جس میں ہر وہ کام جو خود کرنا اچھا لگے، دوسروں کے لیے اسے بیک جنبش قلم غلط قرار دے دیا جاتا ہے۔ گریبان میں جھانکنا کوئی پسند نہیں کرتا نہ ہی ان علاقوں میں جہالت کو انٹرنیٹ کا نور متاثر کر پایا ہے۔

مجھے میرے اپنے ایک بزرگ کا کہا ہوا جملہ آج تک نہیں بھولا کہ جب خاندان کے ایک لڑکے کو انہوں نے اس بات پر بے عزت کیا تھا کہ وہ سکن ٹائٹ شرٹ پہن کر اپنے بازوں کے ابھار دکھا کے گھر کی لڑکیوں کو  متاثر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جبکہ ان بزرگ کے بارے میں خاندان کے دیگر بزرگوں کا یہ کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی جوانی شدید رنگین گزاری تھی۔

آپ کے محلے، بلڈنگ یا خاندان کی سب سے حسین عورت اور مرد پر سب سے زیادہ الزامات کیوں لگائے جاتے ہیں؟ فیشن ایبل شخص کو بدکردار ہی کیوں تصور کیا جاتا ہے؟

صرف اور صرف یہی وجہ ہے کہ ہم سے کسی کا خود سے زیادہ حسین، باذوق اور باصلاحیت ہونا ہضم نہیں ہوتا۔ سیانے کہہ گئے ہیں 'سڑنا نئیں چاہی دا ریس کر لینی چاہی دی اے۔‘ یعنی حسد کرنے کی بجائے نقل کر لینا بہتر ہے۔