1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خواتین کے حالات بدلے ہیں، شوارسر

8 مارچ 2019

’پدرانہ معاشروں کی تاریخ کم از کم چار ہزار برس پرانی ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ چالیس سال کی جدوجہد سے یہ ہزاروں برس پرانا نظام مکمل طور پر تبدیل ہو جائے۔‘ جرمنی میں حقوق نسواں کی سرگرم خاتون کارکن شوارسر

https://p.dw.com/p/3EfKm
Alice Schwarzer vor Titelbildern der Emma
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Scheidemann

ڈی ڈبلیو کی نادیہ فاصل نے جرمنی میں حقوق نسواں کی سرگرم کارکن ایلیس شوارسر سے انٹرویو میں خواتین کے حقوق کی تحریک اور ان کے بدلتے ہوئے کردار کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔ پڑھیے ان کا انٹرویو۔

ڈی ڈبلیو:  مس شوارسر، ہم نے رواں برس خواتین کو ووٹ کا حق ملنے کے سوویں سال گرہ منائی ہے۔ اگر ہم ستر کی دہائی کے اوائل میں سے آج تک کا جائزہ لیں، تو خواتین کے حقوق کے حوالے سے خاصی مثبت پیش رفت ہوئی ہے، مگر اس سلسلے میں جو اہداف طے کیے گئے تھے، آپ کو لگتا ہے کہ وہ حاصل کر لیے گئے ہیں؟

ایلیس شوارسر ہم جانتے ہیں کہ پدرانہ معاشروں کی تاریخ کم از کم چار ہزار برس پرانی ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ چالیس سال کی جدوجہد سے یہ ہزاروں برس پرانا نظام مکمل طور پر تبدیل ہو جائے۔ مگر ایک فرد کی زندگی کے حوالے سے دیکھیے تو بہت پیش رفت ہوئی ہے۔ ہم کئی قدم آگے بڑھ چکے ہیں، فقط جرمنی ہی میں نہیں بلکہ پوری مغربی دنیا میں۔ ہمیں قانونی مساوات دستیاب ہے، ہمیں تعلیم تک مکمل رسائی حاصل ہے۔ ہمیں پیشے کے چناؤ کی مکمل آزادی مل چکی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ جرمنی میں گزشتہ تیرہ برس سے ایک خاتون چانسلر ہیں۔

خواتین و بچوں پر تشدد اب بھی موجود ہے، مگر معاشرتی طور پر اسے بھی مسترد کیا جاتا ہے۔ تاہم یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ تشدد برتری کے رویوں کی جڑ ہے۔ معاشرتی سطح پر تاہم اسے بھی غلط سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح کئی نئے مسائل ہمارے سامنے ہیں۔ پورنوگرافی کا طوفان ہمارے سامنے ہے۔ اب بھی خواتین کے جسم کی لڑائی موجود ہے۔ ایک طرف مسلم شدت پسندوں کی وجہ سے کئی ممالک میں خواتین خود کو چھپاتی نظر آتی ہیں، تو  ہماری طرف وہ اپنا جسم دکھاتی ملتی ہیں۔ یہ دونوں ہی حل نہیں ہیں، مگر یہاں خواتین کی صورت حال افغانستان یا دیگر مختلف خطوں کے مقابلے میں ’جنت‘ جیسی ہے۔

ڈی ڈبلیو آج مغربی معاشرہ جس صورت حال کا شکار ہے، اس کی بابت آپ نے برسوں پہلے نشان دہی کی تھی۔

ایلیس شوارسر میں آٹھ مارچ 1979 کو مختلف فرانسیسی دانش وروں کے ساتھ ایران میں تھی کیوں کہ ایرانی خواتین نے ہم سے مدد مانگی تھی۔ ایرانی خواتین کو ایک دم ملازمتوں سے الگ کر کے گھر بٹھا دیا گیا تھا اور یہ احکامات جاری ہو چکے تھے کہ وہ اپنا آپ چھپائیں۔ اچانک ان سے حقوق چھین لیے گئے تھے۔ یہ بے حد تیزی سے ہوا تھا۔

مجھے وہاں حکم رانوں اور بااثر خواتین سمیت بہت سے لوگوں سے ملاقات کا موقع ملا تھا۔ مگر یہ خواتین چہرے پر ایک بڑی مسکراہٹ کے ساتھ کہہ رہی تھیں کہ بالکل زنا کی سزا سنگ ساری ہونا چاہے۔ بالکل ہم جنس پسندوں کو سنگ سار کرنا چاہیے۔ بالکل چور کے ہاتھ کاٹ دینے چاہییں۔’ یہ ہمارے قرآن کا حکم ہے۔‘ یہ وہ خواتین تھیں، جن میں سے زیادہ تر نے کم از کم جزوی تعلیم مغرب میں حاصل کی تھی۔ انہوں نے شاہ کے خلاف جدوجہد کی تھی۔ انہیں امید تھی کہ ایک عمدہ معاشرہ قائم ہو گا۔ مگر مجھے علم تھا کہ یہ آزادی کے لیے تو بہت عمدہ انداز سے لڑ سکتی ہیں مگر آزادی سے رہ نہیں سکتیں۔ ان میں سے زیادہ تر اب حیات نہیں ہیں۔

میں بہ طور لکھاری اور ’’ایما‘ میگزین کی خالق کے طور پر 40 برس تک متحرک رہی ہوں اور ایران جیسے ممالک کی خواتین کے ساتھ مسلسل رابطہ رہا ہے۔ مگر مجھے یہ صورت حال دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے۔ ایران میں خواتین کے خلاف بھیانک تشدد عام ہے۔ اور افغانستان، مجھے معلوم نہیں امریکی جب طالبان سے مذاکرات کر رہے ہیں، تو یہ وہاں لڑنے کیوں گئے تھے؟ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات ایک مذاق کے علاوہ کچھ نہیں۔ خواتین کی پرامن زندگی کے لیے کیا مذاکرات ہو رہے ہیں؟ مگر کسی کو پروا نہیں۔

میرے خیال میں مغربی دنیا کو اس معاملے میں اپنی پوزیشن بالکل واضح رکھنا چاہیے۔ میں آپ کو ایک مثال دیتی ہوں۔ تمام مغربی دنیا نے کئی دہائوں تک جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کی وجہ سے اس کا مکمل بائیکاٹ کیے رکھا۔ کیوں کہ انسانوں کو جانوروں یا ان سے بھی بدتر سلوک کا سامنا تھا اور یہ ناقابل برداشت بات تھی۔ یہ بین الاقوامی اور خصوصا اقتصادی بائیکاٹ بہت پر اثر رہا اور اس کا نتیجہ اس نسل پرستی کے خاتمے کی صورت میں برآمد ہوا۔ تو ہم ایسے ممالک کا مکمل بائیکاٹ کیوں نہیں کرتے جہاں خواتین کو جانوروں بلکہ ان سے بھی بدتر سلوک کا سامنا ہے؟

ڈی ڈبلیو: افغانستان میں پچھلے سترہ برسوں پر نگاہ ڈالی جائے تو وہاں تعمیر و ترقی میں مغربی دنیا نے کافی معاونت کی۔ دوسری جانب منفی پیش رفت یہ ہے کہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق سے متعلق کبھی بات ہوتی نظر نہیں آتی۔ حتیٰ کہ مقامی میڈیا بھی اس موضوع کو نظرانداز کرتا ہے۔

شوارسر جی میرے خیال میں اس کی وجہ جیوپولیٹکل اور اقتصادی مفادات ہیں۔ ان ممالک کو کاروبار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور جنگ تعمیر نو کا کاروبار بنتی ہے۔ خواتین، ناقدین اور دانشوروں کے حقوق کی بات کی جائے، تو جیوپولیٹکل اور اقتصادی مفادات کی قربانی دینا پڑتی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں