1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خواتین کو ’سوری‘ کہنے سے روکنے والی اَیپ

امجد علی7 جنوری 2016

’سوری‘ کہنا عام طور پر اچھی عادات و اطوار کی علامت گردانا جا سکتا ہے لیکن خواتین کی مدد کے لیے تیار کی جانے والی ایک نئی اَیپ ’جَسٹ ناٹ سوری‘ اُنہیں حد سے زیادہ مرتبہ معذرت خواہانہ انداز اختیار کرنے سے روکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1HZiz
Symbolbild Sorry
اٹھائیس دسمبر کو لانچ ہونے والی اِس اَیپ کو اب تک 53 ہزار افراد ڈاؤن لوڈ کر چکے ہیںتصویر: Fotolia/lafota

یہ اَیپ امریکی شہر نیویارک کی سافٹ ویئر تیار کرنے والی ایک کمپنی سائرس انوویشن کی تینتیس سالہ سربراہ ٹامی رائس نے تیار کی ہے۔ ٹامی رائس کی قیادت میں اس کمپنی میں اٹھارہ افراد کام کرتے ہیں۔

کامیاب کاروباری خواتین کے ایک اجتماع میں ٹامی رائس نے محسوس کیا کہ سبھی خواتین کو ایک ہی مسئلے کا سامنا تھا کہ وہ مسلسل ایسے لفظ استعمال کر رہی تھیں، جو اُن کی اتھارٹی یا اثر و رسوخ کو کمزور کر رہے تھے۔ رائس نے سوچا کہ یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔

اپنی اسی سوچ کے تحت اُنہوں نے ’جَسٹ ناٹ سوری‘ کے نام سے ایک نئی اَیپ تیار کر ڈالی، جسے کچھ لوگ حقوقِ نسواں کی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے ایک بڑی پیشرفت قرار دیتے ہوئے سراہ رہے ہیں تو دیگر اسے ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔

سرِدست یہ اَیپ صرف جی میل اور گوگل کروم کے لیے ہے اور صرف انگریزی زبان میں دستیاب ہے۔ جیسے ہی کسی عبارت میں ’سوری‘، ’میرا خیال ہے‘ یا ’میں کوئی ماہر تو نہیں ہوں‘ جیسے الفاظ لکھے جاتے ہیں تو یہ اَیپ فوراً نشاندہی کرتی ہے اور ایسے الفاظ کے استعمال سے خبردار کرتی ہے۔

نیوز ایجنسی روئٹرز کے ایک جائزے کے مطابق مفت دستیاب اس اَیپ کو، جسے اٹھائیس دسمبر کو لانچ کیا گیا تھا، اب تک 53 ہزار افراد ڈاؤن لوڈ کر چکے ہیں۔

یہ اَیپ مزید جن انگریزی الفاظ کے استعمال سے خبردار کرتی ہے، اُن میں ’جَسٹ‘ ، ’ایکچوئلی‘ اور ’ٹرائی‘ بھی شامل ہیں۔ ٹامی رائس کا کہنا ہے کہ خواتین یہ الفاظ کثرت سے استعمال کرتی ہیں اور اس سے اُن کا مقصد اپنی بات میں نرمی پیدا کرنا یا خود کو زیادہ پسندیدہ بنانا ہوتا ہے۔ ٹامی رائس کے مطابق اگر ایسی خواتین کہیں ملازمت کرتی ہیں تو پھر اپنے اس طرح کے الفاظ سے وہ اپنی عزت خود ہی گھٹا لیتی ہیں اور یوں اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کر لیتی ہیں۔

صارفین کے مطابق جب سے اُنہوں نے یہ اَیپ استعمال کرنا شروع کی ہے، اُنہوں نے یہ محسوس کیا ہے کہ وہ لکھنے میں بھی اور بات چیت کے دوران بھی ایسے الفاظ استعمال کرنے کے سلسلے میں محتاط ہو گئے ہیں، جن سے کسی کی دلآزاری کا پہلو نکل سکتا ہو۔

Bildergalerie Australien Aborigines Versöhunungswoche
اَیپ تیار کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ’سوری‘ جیسے الفاظ لکھنے یا بولنے والے کی اتھارٹی یا اثر و رسوخ کو کمزور کرتے ہیںتصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Griffith

رائس نے کہا کہ اگرچہ یہ اَیپ خواتین کے لیے تیار کی گئی ہے لیکن اس سے مرد بھی استفادہ کر سکتے ہیں۔ خواتین ہی میں سے کچھ حلقوں نے اس اَیپ کو ہدفِ تنقید بنایا ہے اور کچھ مطالعاتی جائزوں کے حوالے سے یہ کہا ہے کہ نرم اور دھیمے الفاظ ہی کی وجہ سے تو خواتین بھی اُتنی ہی کامیابی حاصل کرتی ہیں، جتنی کہ مرد۔ اُن کے خیال میں اس اَیپ کی خامی یہ ہے کہ اس کے ذریعے خواتین اپنے اس ’خفیہ ہتھیار‘ سے دستبردار ہو جائیں گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید